اسلام آباد (نمائندہ امت/ مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو فارغ کردیا۔ کونسل کے چیئرمین کی جانب سے ارسال کی گئی سمری میں کہا گیا تھا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21جولائی کو راولپنڈی بار کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے حساس ادارے اور ساتھی ججز کے خلاف تقریر سے ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی، جس کے بعد وہ اپنے عہدے پر رہنے کے اہل نہیں رہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے پانچ ارکان نے متفقہ طور پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی رائے دی۔ صدر مملکت کی منظوری کے بعد وزارت قانون نے نوٹیفیکشن جاری کر دیا ہے۔ اس کے مطابق آرٹیکل 209 (5) اور سپریم جوڈیشل کونسل آف پاکستان کی جانب سے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 209 (6) کے ساتھ آرٹیکل 48 (1) کے تحت کی جانے والی سفارش پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ہٹا دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رواں سال 21 جولائی کو راولپنڈی بار میں وکلا سے خطاب کیا تھا۔ اس دوران انہوں نےحساس ادارے پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا اور ساتھی ججز کے خلاف بھی تقریر کی تھی۔ اس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے از خود کارروائی کرتے ہوئے ان کے خلاف ریفرنس بنایا تھا، جس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے بھی جواب جمع کرایا گیا، جبکہ چیف جسٹس نے بھی ان کے بیان کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا ایک اجلاس یکم اکتوبر کو ہوا، جس کے بعد اب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی متفقہ سفارش کی گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی طرف سے لکھی گئی سفارشات میں کہا گیا کہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی ججز کے بارے میں بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209کے سب سیکشن 6 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کو ہٹانے کے لیے سمری سیکریٹری قانون کو بھجوائی تھی، جسے منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوا دیا گیا تھا۔سمری کی ایک نقل وزیراعظم ہاؤس اور ایک جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی بھجوادی گئی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اہم کیسز کی سماعت کرتے رہے ہیں اور انہوں نے ایک کیس کی سماعت کے سلسلے میں بنچ سے علیحدہ کیے جانے پر ناراضی کا بھی اظہار کیا تھا۔خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 2ریفرنسز زیر التوا ہیں، جن میں ایک ریفرنس بدعنوانی سے متعلق ہے، جو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ایک ملازم کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف پہلا ریفرنس سی ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر انور علی گوپانگ نے دائر کیا تھا جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش کے لیے 80لاکھ روپے خرچ کیے حالانکہ وہ یہاں یہ رقم خرچ کرنے کے حق دار نہ تھے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف دوسرا ریفرنس گزشتہ برس ہونے والے فیض آباد دھرنے میں پاک فوج کے کردار کے بارے میں ان کے ریمارکس سے متعلق ہے، جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سوالات اٹھائے تھے، یہ ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم خالق نے دائر کیا تھا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دونوں ریفرنسز کو کھلی عدالت میں سننے کی درخواست دی تھی جس پر کارروائی ابھی جاری تھی۔سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوتی اور صدر مملکت پر لازم ہے کہ وہ اس کی سفارشات پر عملدرآمد کریں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی اگلے ماہ مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہو جائیں گے۔ خیال ہے کہ ان کے بعد جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس ہوں گے۔ جسٹس شوکت صدیقی ملکی تاریخ کے دوسرے جج ہیں جن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔اس سے پہلے 1973میں لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ جسٹس شوکت علی کے خلاف ریفرنس کی سماعت 10ماہ تک چلی تھی۔
٭٭٭٭٭