جکارتہ(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان نے انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کے لیے باضابطہ طور پر درخواست کردی ہے۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لاگارڈے سے انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس کی سائڈلائن پر وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر اور گورنر اسٹیٹ بینک سمیت دیگر حکام نے ملاقات کی، اس دوران پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سے قرض کے لیے باضابطہ طور پر درخواست کی گئی،ٹویٹر پر جاری بیان میں منیجنگ ڈائریکٹر (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان نے باضابطہ طور پرمالی امداد کے لیے درخواست دی ہے جس کے لیے آئی ایم ایف کا وفد آئندہ ہفتوں میں پاکستان جائے گا اور قرض کے حجم کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔ آئی ایم ایف اس سلسلے میں پہلے ہی آمادگی ظاہر کر چکا ہے،حکومت کو رواں سال کے دوران 8 سے 9 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔پاکستان اور آئی ایم ایف کا تعلق 6 دہائیوں پر مبنی ہے۔ معاشی بحالی کے نام پر ہر آمریت اورجمہوری دور میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا۔ کڑی شرائطوں پر بیل آؤٹ پیکجز ملے مگر آج تک بیمار معیشت آئی سی یو سے نہ نکل سکی۔پہلی بار 1958 میں پاکستان مالی امداد کیلئے آئی ایم ایف کے پاس گیا۔اسٹینڈ بائی پروگرام پر دستخط ہوئے لیکن پروگرام نو ماہ بعد ہی بند کردیا گیا۔1965 کی جنگ سے پہلے نیا پروگرام لیا گیا اوروہ بھی بمشکل ایک سال چلا ۔1973، 74 ،75 اور 1977 میں بھی آئی ایم ایف سے پروگرام لئے گئے جو پایہ تکمیل کونہ پہنچ سکے۔1980 میں لیا گیا قرض کا پروگرام تین سال جاری رہا۔انچ سال وقفے کے بعد دسمبر 1988 میں عالمی ادارے سے قرض کے دو پروگرام حاصل کیے گئے جو 1990 اور 1992 میں ختم ہوئے۔1993 اور 1994 میں حکومت نے آئی ایم ایف کا پھر در کھٹکھٹایا لیکن صورتحال جوں کی توں رہی۔اسی طرح 1995 سے 2000 تک لئے گئے تین پروگرام بھی وقت سے پہلے ہی فلاپ ہوئے۔سابق نون لیگ حکومت نے 2013 کا 6.2 ارب ڈالر کا پروگرام پایہ تکمیل تک تو پہنچایا مگر معاشی اصلاحات نہ ہوسکیں اور اب پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی متعدد دعوؤں کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانےکافیصلہ کیاہے۔