ایران میں مسافروں کو سامان کی حفاظت کا دھڑکا نہیں ہوتا

0

دوسرے دن یعنی گیارہ مارچ 2002ء کو میں ضروریات سے فارغ ہو کر اپنی ذاتی اور فیلڈ ڈائریاں مکمل کرنے کے بعد اور سامان پیک کرکے فارغ ہوا تو میرے سامنے سوال تھا کہ جزیرہ ہرمز کی اس اللہ بخشی سبز پانی کی بوتل کا کیا کروں، جس کو میں کمرے میں بڑے احترام سے رکھ رہا تھا اور بندر عباس میں قیام کے دوران صرف اسی کا پانی پی رہا تھا اور جس کا پانی ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس بوتل کو برائے برکت اسی مہمان پذیر میں چھوڑ کر جاتا ہوں کہ جہاں میں نے اچھا وقت گزارا ہے۔ یہ فیصلہ کر کے اس یادگار بوتل کو کمرے کی مطالعاتی میز پر رکھا اور اس کی تصویر اپنے کیمرے میں محفوظ کر لی۔
جب میں اپنے سامان کے ساتھ مہمان پذیر کے استقبالیے پر برائے ادائیگی بل پہنچا تو اتفاق سے اس وقت مہتمم استقبالیہ کی ڈیوٹی ہوٹل کی مالکہ آنسہ احمدے ہی ادا کر رہی تھیں۔ سلام دعا کے بعد میں نے محترمہ کا دلی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اور ان کے ملازمین نے مہمان پذیر بلوار میں میرے قیام کے دوران میرا ازحد خیال رکھا اور اس طرح بندر عباس میں میرے پورے قیام کو بڑا خوشگوار اور یادگار بنا دیا۔ آنسہ احمدے نے میرے بیان پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ مہمان پذیر کے واجبات کی ادائیگی کے بعد جب میں چلنے لگا تو آنسہ احمدے نے اپنے مہمان پذیر کا ایک عدد کارڈ دراز سے نکالا اور اس کی پشت پر اپنا نام تحریر کیا اور اسے پورے احترام و خلوص کے ساتھ مجھے پیش کر دیا۔ کیونکہ ابھی تک مجھے محترمہ کا نام معلوم نہیں تھا، اس لئے میں نے ان کا نام جاننے کے لئے کارڈ کی پشت پر لکھا نام پڑھا تو احمدے سے پہلے آنسہ بھی لکھا ہوا تھا، جو میری سمجھ میں نہیں آیا۔ چونکہ اپنی جہالت کی وجہ سے اس وقت تک میں اس لفظ سے ناآشنا تھا، اس لئے میں نے مس احمدے سے اس کی بابت دریافت کیا کہ یہ لفظ کیا ہے اور اس کا صحیح تلفظ کیا ہے؟ تو جواباً وہ بولیں کہ یہ لفظ انگلش کے لفظ مس کا فارسی ہم معنی ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی صاف کر دی کہ فارسی میں شادی شدہ خواتین کے اصل نام سے پہلے خانم لگایا جاتا ہے۔ اور غیر شادی شدہ خواتین کے نام سے پہلے آنسہ لگایا جاتا ہے۔ قارئین کرام، بدقسمتی سے وہ خاص کارڈ مجھ سے گم ہو گیا۔ جبکہ مہمان پذیر بلوار میں اپنی آمد کے روز جو کارڈ میں نے اپنی درخواست پر لیا تھا، وہ تاحال میرے پاس موجود ہے۔ میں نے آنسہ احمدے کے روبرو اپنی جہالت کا اعتراف کیا اور پھر اس بچی کو اس کے اپنے بتائے ہوئے نام سے پکار کر خدا حافظ کیا اور مہمان پذیر سے باہر نکل آیا۔ ایک ٹیکسی پکڑی اور سیدھا اتو بس ترمینال پہنچ گیا اور وہاں سے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی بنام تعاونی نمبر 6 کے ذریعہ کرمان جانے والی بس میں بارہ سو ریال ادا کرکے اپنی نشست مخصوص کرالی۔ مگر اس کمپنی والوں نے مجھ سے تو لیے بارہ سو ریال، مگر ٹکٹ دیا ایک ہزار ریال کا۔ یہی نہیں، اس سے پہلے بھی بارہا میرے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ گمان یہ ہے کہ ایران میں ہر بس کمپنی اپنے ٹکٹ، ٹکٹ فروش کمپنیوں کے ذریعے فروخت کرتی ہیں، جو اپنا کمیشن مسافروں سے زائد رقم لے کر وصول کرتے ہیں، مگر اس کی رسید نہیں دیتے۔
بس ترمینال پہنچ کر یہ دلچسپ خبر بھی ملی کہ بندر عباس بس ترمینال سے تمام کمپنیوں کی بسیں یا تو صبح چھ 6 بجے سے پہلے نکل جاتی ہیں یا پھر شام کو 7 بجے کے بعد نکلتی ہیں۔ ایران میں علاوہ اور بہت سے قابل تقلید طریقہ ہائے کار کے ایک سسٹم صندوق امانت یا امانت گاہوں کا ہے۔ یہ آسانی ہر ریلوے اسٹیشن پر اور تمام بس اڈوں پر اور تمام قابل ذکر ہوٹلوں اور مہمان پذیروں پر دستیاب ہے۔ اس آسانی کی قیمت صرف پانچ ہزار (5000) ریال ہے۔ چونکہ میری بس کے کوچ کا وقت سوا چھ بجے شام تھا اور اس وقت تقریباً صبح کے نو بجے تھے، اس لئے میں نے صندوق امانت کی آسانی سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا سب سامان سوائے اپنے کیمرے کے بیگ کے کہ جس میں میرے کیمرے کے علاوہ فوری ضرورت کی تقریباً تمام اشیا سما جاتی تھیں، بس اسٹینڈ کے صندوق امانت میں رکھوا دیا اور پھر وہاں سے ایک ٹیکسی پکڑ کر ایک مرتبہ پھر بندر عباس کی ساحل سمندر کی تفریح گاہ الموسوم بہ ’ساحل‘ پہنچ گیا۔ جہاں گزشتہ روز اس گمان کے ساتھ گیا تھا کہ یہ ’ساحل‘ پر میرا آخری وزٹ ہے۔ اپنی بس کے کوچ کے وقت سے تھوڑی دیر پہلے میں نے ساحل کو خدا حافظ کہا اور بذریعہ ٹیکسی بس اسٹینڈ پر پہنچ گیا۔ صندوق امانت سے اپنا سامان وصول کیا اور اپنی بس میں جاکر براجمان ہوگیا۔
اس بس نے سوا چھ بجے بندر عباس کے اتوبس ترمینال کو چھوڑ دیا اور یہ بندہ عاجز اپنے ہمراہی مسافروں کے ساتھ سوئے کرمان روانہ ہوگیا۔ رات کے کھانے کے لیے ہماری بس حاجی آباد میں ایک اچھے خاصے رستوران پر رکی اور وہاں میں نے اپنے لیے چپل کباب کی ڈش پسند کی۔ کھانے کے دوران اور بعد میں ہرات (افغانستان) کے ایک نوجوان اور رفسنجان (ایران) سے تعلق رکھنے والے دو ایرانی نوجوانوں سے بہت اچھی گپ شپ رہی۔ یہ بات پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ایران میں موجود افغانی باشندے پاکستانیوں کو دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور بڑے خلوص سے ملتے ہیں۔ ایرانی لوگ بھی پاکستانیوں سے ملتے ہیں تو ایسے ہی مثبت جذبات کا اظہار کرتے ہیں باوجودیکہ پاکستان میں کچھ شدت پسند اور دین کی صحیح سمجھ نہ رکھنے والے لوگوں کا ایک گروہ مستقل اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ دونوں برادر مسلم ممالک کے درمیان غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا ہوجائیں۔
ہماری بس حاجی آباد سے چلی اور سیر جان (ایران کا خام لوہے کا عظیم منبہ) سے گزرتی ہوئی رات چار بج کر پینتالیس منٹ پر کرمان پہنچ گئی۔ اس سفر اور بندر عباس سے حاجی آباد تک کے سفر میں ہم مسافروں کو ایرانی پولیس کی کئی موبائل چھاپہ مار ٹیموں اور پولیس چیک پوسٹوں پر چیکنگ اور پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے محسوس کیا کہ ایران میں پبلک ٹرانسپورٹس کی چیکنگ کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ ہے۔
کرمان میں بس ڈرائیور نے ہم مسافروں کو اتوبس ترمینال پر نہیں اتارا، بلکہ بس کمپنی کی کسی ورکشاپ یا گودام پر اتارا۔ شاید اس شریف آدمی کی یہ روزانہ کی پریکٹس تھی کہ اس ورکشاپ یا گودام پر کئی ٹیکسیاں مسافروں کا انتظار کر رہی تھیں۔ میں نے ایک ٹیکسی کے شریف النفس ڈرائیور سے بات کی اور اس مرد نیک نے اتنی رات گئے صرف پانچ ہزار ریال میں مجھے میرے پرانے مہمان پذیر سعدی پہنچا دیا، جس کے صندوق امانت میں 25 فروری 2002ء کو سیرجان جاتے ہوئے میں اپنا کچھ سامان بالخصوص کرمان کوئلے کی کانوں سے حاصل کردہ معدنیاتی نمونے جمع کرا گیا تھا۔
مہمان پذیر سعدی کے بزرگ مہتم استقبالیہ نے مجھے خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا اور میری درخواست پر مجھے میرا پرانا کمرہ نمبر 12 دوبارہ الاٹ کر دیا۔ میں نے ایک دن کا پیشگی کرایہ مبلغ اٹھائیس ہزار (28000) ریال ادا کر دیئے۔ جلد تیار ہوکر اور اپنا ضروری فیلڈ کا سامان لے کر میں سیدھا کرمان میں اپنی پسندیدہ جگہ میدان آزادی پہنچا اور وہاں اپنی پرانی اسنیک بار سے انڈے اور پنیر کا برگر ایک ٹھنڈے مشروب کے ساتھ بطور ناشتہ سپرد معدہ کیا کہ سیاہ چائے مع دودھ اس اسنیک بار میں ملتی نہ تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More