کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو)اومنی گروپ کو ڈیڑھ ارب سے نوازنے میں اہم شخصیات ملوث نکلیں۔شرائط پر پورا نہ اترنے کے باوجودچینی پرسبسڈی دی گئی۔جے آئی ٹی کوریکارڈ دینے میں سندھ کے حکام پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ اسکینڈل میں94 جعلی اکائونٹ ہولڈرز کے بیانات ریکارڈ کر لئے گئے۔غریب افراد کے نام پر اکاؤنٹ کھول کر کروڑوں روپے منتقل ہونے پراسٹیٹ بنک کو لیٹر جاری کر کے تفصیلات طلب کر لی گئیں دیگر بینکوں کوبھی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اومنی گروپ کو سبسڈی کے ذریعے فائدہ پہنچانے کے لئے ضمنی سمری کی تیاری اور منظوری دینے کے معاملے پر منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنا رخ حکومت سندھ کی اہم شخصیت ، سابق سیکریٹری زراعت، ایک سابق وزیر زراعت ، سابق کین کمشنر اور منظوری دینے والی سابق کابینہ کے کچھ اہم اراکین کی طرف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق چینی برآمد کرنے کے نام پر اومنی گروپ کو ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچانے کے لئے سیکریٹری زراعت کی طرف سے ضمنی سمری تیار کی گئی تھی جسے منظوری کے لئے ایک سابق وزیر زراعت نے سمری مزید کارروائی کے لئے اہم شخصیت کو ارسال کر دی تھی۔ اس ضمنی سمری کی منظوری بعد میں کابینہ اجلاس میں دی گئی۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی طرف سے شوگر ملوں کو 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی تھی اس کے لئے جو شرائط مقرر کی گئیں تھیں ان پراومنی گروپ پورا نہیں اتر رہا تھا۔ نہ تو اس کی ملیں مقررہ وقت پر چلائی گئی تھیں اور نہ ہی گنے کے آبادگاروں کو مقررہ قیمت ادا کی گئی تھی ۔ ذرائع کے مطابق ضمنی سمری کی منظوری سے اومنی گروپ کو ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا گیا۔زرائع کے مطابق اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے میں اہم کردار ادا کرنے والے اس وقت کے کین کمشنر کو اس وقت سیکریٹری زراعت تعینات کر دیا گیا ۔ جے آئی ٹی کی طرف سے سبسڈی کی تحقیقات کے لئے حکومت سندھ سے ریکارڈ طلب کیا گیا ہے تاہم حکومت سندھ ریکارڈ فراہمی سے گریز کر رہی ہے ۔ محکمہ صنعت نے چیف سیکریٹری کو لکھے گئے لیٹر میں کہا ہے کہ بیمار صنعتوں کی بحالی اور شوگر ملز کو دی جانے والی سبسڈی کے معاملے میں محکمہ صنعت کو بائی پاس کیا گیا تھا لہٰذا ان کے پاس ریکارڈ نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کو تا حال سبسڈی اور ٹھیکوں کی تفصیلات فراہم نہیں گئیں اور نہ ہی ریکارڈ کی فراہمی کے لئے کوئی ٹائم فریم دیا گیا ہے ۔ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے سندھ حکومت کو ریمائنڈر لیٹر لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد بھی ریکارڈ نہ ملا تو سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جائے گا اور متعلقہ ذمہ داروں کے خؒاف کارروائی کی جائے گی ۔دوسری جانب تحقیقات کے دوران چونکا دینے والے انکشافات کے بعد جے آئی ٹی نے تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے کئی ارب پتی اکاؤنٹ دہندگان کے نام سامنے آنے لگے ہیں، ذرائع کے مطابق94 افراد کے بیانات ریکارڈ کئے گئے ہیں جن میں سے بیشتر غریب ہیں اور ان کے نام پر جعلی اکائونٹ کھول کر منی لانڈرنگ کی گئی، ان میں ایک غریب مزدور کا نام دو روز قبل سامنے آیا تھا۔غریبوں کے بینک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے منتقل ہونے اور ان کے جعلی دستخطوں پر اکاؤنٹ کھولے جانے کے معاملے پر جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بینک سے تفصیلات طلب کرنے کے بعد جن برانچوں میں اکاؤنٹ کھولے گئے ان کو بھی شامل تفتیش کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق چھان بین کے دوران اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے اومنی گروپ نے ان کے کیس لڑنے والی لیگل فرم کے ساتھ بھی ہاتھ کر دیا اور فرم کوفیس کی ادائیگی بھی جعلی اکاؤنٹس سے کی گئی ۔ لیگل فرم اٹارنی جنرل انور منصور خان کی ہے اور انہوں نے اس کیس کی پیروی 4 سال قبل اورعہدہ سنبھالنے سے پہلے کی تھی۔ صورتحال سامنے آنےپر گزشتہ روز اٹارنی جنرل کی فرم کو بیان قلمبند کروانے کے لیے طلب کیا گیا تھا اور انور منصورکے بھائی عاصم منصور نے بیان قلمبند کروایا۔ عاصم منصور کا کہنا تھا کہ اومنی گروپ کی طرف سے پنگریو شوگر مل کیس میں 23لاکھ 3 ہزار 200 روپے کے 2 چیک دئیے گئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ چیک جعلی ا کاؤنٹ سے دئیے گئے یا اصلی اکاؤنٹ سے موصول ہونے والا چیک فرم کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا گیا جو کلیئر ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ 4 سال پرانا ہے اور یہ کیس لینے کے لئے ذوالفقار مرزا نے سفارش کی تھی تاہم وہ یہ نہیں جانتے کہ ذوالفقار مرزا اور اومنی گروپ کے درمیان اختلافات کی کیا وجوہات ہیں اور نہ انہیں اس سے کوئی دلچسپی تھی۔