اسنیک بار سے فارغ ہوکر میں سیدھا بذریعہ ٹیکسی اتو بس ترمینال برائے راور پہنچا۔ چونکہ ’راور‘ کی بس ابھی بس اسٹینڈ پر پہنچی نہ تھی، اس لیے ٹیکسی ڈرائیور کے مشورے پر طے کیا کہ راور روڈ پر پہنچ کر کسی بس، ٹرک، ویگن یا ادھر جانے والی کسی پرائیویٹ کار میں پیڈ لفٹ لی جائے۔ مگر یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا۔ تقریباً دو گھنٹے تک راقم الحروف اور ایک مقامی صاحب ٹرکوں، بسوں، ویگنوں کے پیچھے راور، راور کی صدائیں لگاتے ہوئے دوڑتے رہے، مگر یا تو راور جانے والی کوئی گاڑی نہ تھی یا کسی ڈرائیور نے ہمیں لفٹ نہیں کرائی۔ آخرکار آوازیں لگانے بلکہ چیختے چیختے میرا اور میرے ساتھی کا گلا بیٹھ گیا اور پیاس نے بھی برا حال کر دیا۔ آخر رحمت خداوندی جوش میں آئی اور راور جانے والی وہی بس نمودار ہوئی، جس کا انتظار ٹیکسی ڈرائیور کے کہنے پر میں نے راور کے بس اسٹینڈ پر نہ کیا تھا۔ بہرحال ہم دونوں اس بس میں سوار ہوگئے۔ بس بڑی آرام دہ تھی اور ہم دو سواریوں کے اضافے کے بعد بھی کئی سیٹیں خالی تھیں۔ کرمان سے راور کا فاصلہ تقریباً ایک سو بیس کلومیٹر تھا اور راور کے ٹکٹ کی قیمت دس ہزار ریال تھی۔ ہماری بس نے یہ فاصلہ تقریباً دو گھنٹے میں طے کر کے مجھے تقریباً ڈیڑھ بجے سہ پہر راور پہنچا دیا۔ بس اسٹینڈ سے میں مارچ کر کے ایک رینٹ اے کار کے دفتر پہنچا اور وہاں سے ایک پرائیویٹ کار حاصل کی، جس کے ڈرائیور، کار کے مالک جناب علی قلی حبی خود تھے۔ راور سالٹ ڈوم تک جانے، وہاں کام کرنے اور واپس آنے کا کل کرایہ مبلغ ساٹھ ہزار ریال طے پایا۔ فیلڈ پر جانے سے پہلے ایک کبابیے کے ریستوران میں کباب روٹی کے عجلتی ظہرانے کا لطف اٹھایا اور پھر بجانب راور سالٹ ڈوم تقریباً ڈھائی بجے روانہ ہوگئے۔ کار کے مالک اور ڈرائیور علی قلی حبی میرے بڑے اچھے ڈرائیور اور ایک ذہین جیولوجیکل اسسٹنٹ ثابت ہوئے۔ جہاں میں نے سالٹ ڈوم کے مختلف حصوں کی تصاویر لیتے وقت ان سے بطور پیمانہ کھڑے ہونے کی درخواست کی، وہ بے چون و چرا وہاں جاکر مناسب ترین انداز میں کھڑے ہوگئے اور یوں میرا کام خاصا آسان کردیا۔ انہوں نے نمک کی مٹی کے نمونہ گیری میں بھی میری مدد کی۔ اور آخر میں ان تمام زائد خدمات کے بدلے میں اگر کوئی درخواست کی تو صرف یہ کہ پاکستان جاکر میں ان کی تمام تصاویر کا ایک ایک پرنٹ انہیں روانہ کروں گا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا اور پاکستان آکر پہلی فرصت میں ان کی تصاویر ان کو بذریعہ ڈاک روانہ کردیں۔ مگر نہ حبی صاحب کی جانب سے اور نہ ہی کسی اور ایرانی یا افغانی دوست سے مجھے کوئی رسید موصول ہوئی۔
راور میں بھی سمنان کی طرح سالٹ ڈوموں کی ایک پوری فیملی آباد ہے۔ زیر بحث راور شمال سالٹ ڈوم بھی میرے حقیر جائزے کے مطابق دراصل سمنان سالٹ ڈوم کی طرح ایک سالٹ وال ہے جو لمبائی میں شمال مغربی اور جنوب مشرقی سمتوں میں تقریباً اٹھارہ کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی چوڑائی چھ سو میٹر کے قریب ہے۔ یہ سالٹ ڈوم ایران میں میرے دیکھے ہوئے تمام سالٹ ڈوموں سے مختلف ہے۔ البتہ یہ ڈوم پاکستان کے ضلع ہائے کوہاٹ و کرک کے سالٹ ڈوموں سے خاصی حد تک ملتا جلتا ہے۔ نہ صرف شکلاً یا اسٹرکچر کے نقطہ نظر سے بلکہ اس کا نمک بھی اپنے سفید و سرمئی رنگ کے ساتھ کوہاٹ و کرک کے نمکوں سے خاصی حد تک ملتا ہے۔ کوہاٹ اور کرک کے سالٹ ڈوموں کی طرح راور شمالی بھی ایک ایڈواسڈ اسٹیج سالٹ ڈوم ہے۔ جس کی نمک کی زیر زمین سپلائی ختم ہوجانے کے بعد نمک کے مرکزی پلگ کا اوپر سرکنا بالکل بند ہوگیا ہے یا برائے نام رہ گیا ہے۔
راور سالٹ وال کے مرکز میں تقریباً ایک سو پچاس میٹر قطر رکھنے والا نمک کا ایک تقریباً گول پلگ اب بھی اوپر سرک رہا ہے اور اس پلگ میں جو سالٹ وال کی عمومی سطح سے تقریباً ساٹھ میٹر اوپر اٹھا ہوا ہے، تازہ نمک دیکھا اور نکالا جاسکتا ہے۔ باقی راور سالٹ وال کے تقریباً اٹھارہ کلومیٹر اور چھ سو میٹر چوڑے رقبے کی اوپری یا سطحی پرت مٹیالی، گلابی اور سرمئی رنگ کی ہے اور نمک کی اپنی ہی تلچھٹی مٹی سے بنی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ وقت کی تنگی کے پیش نظر میں نمک کی اس تلچھٹی مٹی کی تہہ میں ایک گڑھا کھود کر اس کی ضخامت معلوم نہ کر سکا۔ ویسے بھی راور سالٹ وال کی سطحی تلچھی مٹی کی تہہ سمنان سالٹ وال کی تلچھٹی مٹی کی تہہ کی طرح انچوں میں نہیں، بلکہ فٹوں میں معلوم ہوتی تھی اور ہو سکتا ہے وہ میٹروں میں ہی ہو۔ کیونکہ اگر اس مٹی کی اوسط ضخامت انچوں میں ہوتی تو سمنان کی طرح اس کے نیچے سے جگہ جگہ تازہ نمک جھانکتا ہوا نظر آتا۔ ایک اور فیکٹر جو ’راور‘ سالٹ وال کو ایران کے دیگر سالٹ ڈوموں سے ممیز کرتا ہے اور پاکستان کے کوہاٹ وکرک کے اکثر سالٹ ڈوموں بشمول سالٹ والوں کا ہم جنس بناتا ہے، وہ ہے اس کے ہر دو بازئوں کی ڈپ یا جھکائو کی سمت۔ سمنان سالٹ وال اور ہرمز سالٹ ڈوم کی بازوئی چٹانی تہیں ان سالٹ اسٹرکچرز کے مرکز کے مخالف سمت کی جانب ڈپ کرتی ہیں اور اس طرح اس سالٹ اسٹرکچرز کو بالخصوص ہرمز سالٹ ڈوم کو ایک آتش فشاں پہاڑ سے شکلاً مماثلت رکھنے والا اسٹرکچر بناتی ہیں۔ جبکہ راور سالٹ وال کی بازوئی چٹانی تہیں اس سالٹ وال کے مرکز کی طرف یعنی بالکل مخالف سمت میں ڈپ کرتی ہیں اور رحل کے اوپری نصف سے مماثلت رکھتی ہیں۔ رحل کے اوپری نصف حصے کے علاوہ اس کی مثال کسی کرکٹ کے کھلاڑی کے ہاتھوں کی اس شکل سے اغلباً زیادہ بہتر طور پر دی جا سکتی ہے جس میں وہ اپنے ہاتھوں کو بلندی سے آنے والی کسی گیند کو کیچ کرنے کیلئے لاتا ہے۔ کوہاٹ و کرک کے اکثر سالٹ ڈوم جو دراصل سالٹ وال ہیں، اسی زمرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسی سالٹ ڈوم بشمول سالٹ وال کے زمرے سے تعلق کا مطلب ہے کہ وہ ڈوم اب اپنے بڑھاپے کی منزل طے کر رہا ہے اور زیر زمیں منبع سے اس کی نمک کی رسد منقطع ہوچکی ہے یا ہوجانے والی ہے اور جلد یا بدیر اس کا بالائے زمیں اور زیر زمیں اپنی جڑ سے کٹا ہوا نمک بالائے زمیں بارشوں کے عمل سے اور زیر زمیں پانی کے سرکولیشن کے عمل سے گھل کر جذب زمیں ہوجائے گا۔ لارک سالٹ ڈوم کا تمام بالائے زمین نمک پانی میں گھل کر بہت پہلے ہی سمندر برد ہو چکا ہے۔ زیر زمیں کتنا نمک باقی ہے، اس کا صحیح اندازہ صرف معلوماتی کور ڈرلنگ (core drilling) کے ذریعے ہی لگایا جاسکتا ہے۔
قارئین کرام بس چلتے چلتے اتنا بتاتا چلوں کہ راور کے علاقے میں ایک سے زیادہ سالٹ ڈوم واقع ہیں۔ میں نے جو ڈوم وزٹ کیا اور اسے بیان کیا، وہ شمشیر آباد کے مشرق میں اور اسماعیل آباد کے شمال میں واقع ہے۔ نیز یہ ڈوم راور شہر کے شمال میں بذریعہ سڑک کوئی ستّر کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post