نذر الاسلام چودھری
عالمی شہرت یافتہ مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ملائیشیا سے واپس لانے میں سفارتی ناکامی کے بعد بھارتی حکومت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ حکومتی اشاروں پر بھارتی تفتیشی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے تحت کام کرنے والی اسپیشل کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اسلامی اسکالر کی ممبئی میں موجود پانچ جائیدادوں کو ضبط کرلیا جائے۔ احکامات جاری ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر بھارتی پولیس نے ممبئی اور مضافات میں ذاکر نائیک کی تمام جائیدادوں کو ضبط کرلیا ہے اور رجسٹریشن حکام کو کہا ہے کہ وہ ممبئی اور دیگر شہروں میں ایسی جائیدادوں کا پتا چلائیں جو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ہیں تاکہ ان کو ضبط کرکے عالمی اسلامی اسکالر کو مالی اعتبار سے کمزور کیا جاسکے۔ ہندوستان ٹائمز نے سیکورٹی اداروں کے حوالہ سے یہ نیا دعویٰ کیا ہے کہ اے این آئی اسپیشل کورٹ کی جانب سے جائیدادوں کی ضبطی کا فیصلہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے اس رپورٹ کے بعد عجلت میں سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی تنظیم اسلامک ریسرچ فائونڈیشن کیلئے رقوم کی کمی کے سبب اپنی کروڑوں کی جائیداد کو فروخت کرکے یہ رقم دین کی تبلیغ میں لگانا چاہتے ہیں۔ بھارتی وکیل آنند سکھ دیو نے بھی اس ضمن میں تصدیق کی ہے کہ ان کو وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس ذرائع سے علم ہوا ہے کہ ذاکر نائیک کو کم از کم تین ممالک کی جانب سے شہریت دیئے جانے کیلئے پروسس شروع کردیا گیا ہے جس کے تحت ڈاکٹر ذاکر نائیک چاہتے ہیں کہ ممبئی میں کروڑوں کی جائیدادیں فروخت کردیں اور بھارت کو مستقل طور پر خیر باد کہہ دیں۔ ممبئی مزگائوں میں موجود مقامی پراپرٹی ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ ضبط کی جانے والی جائیدادوں کی مالیت تقریبا ایک ارب روپے ہے۔ پراپرٹی ایکسپرٹس نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی پہلی ضبط کی جانے والی پراپرٹی مزگائوں میں کرسٹل ریزیڈنسی بلڈنگ میں موجود 1,360 اسکوائر فٹ پر مشتمل بڑی دکان ہے، جسے اب بھارتی پولیس نے سیل کردیا ہے، جبکہ دوسرے نمبر پر ہفتہ کو ضبط کی جانے والی پراپرٹی میں جاسمین اپارٹمنٹس کے دو فلیٹس شامل ہیں، جن کے نمبر B-1005 اور B-1006 ہیں۔ یہ دونوں ممبئی کے پوش علاقوں کے لگژری فلیٹس ہیں، جن پر مقامی مکینوں کے مطابق پولیس کی جانب سے تالا بندی کی جاچکی ہے اور کورٹ نوٹس بھی چسپاں کردیا گیا ہے۔ ذاکر نائیک کی ضبط کی جانے والی دیگر دو جائیدادیں مزید دو فلیٹس پر مشتمل ہیں، جو بلیوارڈ روڈ پر ماریہ ہائیٹس میں واقع ہیں اور ان کے نمبرز 1,701 اور 1,702 بتائے گئے ہیں۔ ان کے مکینوں نے جو کرائے دار تھے، پہلے ہی پولیس کی جانب سے ہراساں کئے جانے کے بعد فلیٹس کو خالی کردیا تھا۔ واضح رہے مودی سرکار نے کہا ہے کہ عدالتی احکامات پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تمام جائیدادوں کو بحق سرکار ضبط کرلیا جائے اور اگلے مرحلہ میں یہ جائیدادیں حکومتی اعلان کے بعد نیلام کردی جائیں گی۔ بھارتی لکھاری گوتم بھدرواج نے بتایا ہے کہ اے این آئی/ اسپیشل کورٹ کی جانب سے ذاکر نائیک کیخلاف گزشتہ دنوں میں متعدد فیصلے جاری کئے گئے ہیں، جن میں جائیداد کی ضبطی اہم ترین فیصلہ ہے اور اس سے قبل اے این آئی کورٹ ذاکر نائیک کے ناقابل ضمانت وارنٹس کا اجرا بھی کرچکی ہے اور اس سے قبل ان کا قومی پاسپورٹ بھی منسوخ کرچکی ہے۔ ادھر ڈاکٹر ذاکر نائیک اس وقت بھی ملائیشیا میں ہیں اور انتہائی عزت و احترام اور ملائیشیا میں قیام کے مستقل پرمٹ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، جبکہ رواں برس دونوں ملائیشیائی حکومت نے ذاکر نائیک کو دہشت گردی میں ملوث قرار دیئے جانے کا بھارتی ڈوزیئر مسترد کردیا تھا۔ بھارتی حکومت نے ملائیشیا کے الیکشن میں وزیر اعظم نجیب رزاق کی شکست کے بعد نئے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی حکومت سے ذاکر نائیک کی حوالگی کیلئے اگست 2018 میں ایک بار پھر سفارتی رابطہ کیا تھا، لیکن مہاتیر حکومت نے بھی بھارتی حکومت کو ٹکا سا جواب دے دیا تھا۔ ملائیشیائی میڈیا نے ڈاکٹر مہاتیر کا یہ بیان نقل کیا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ملائیشیا میں تا دیر قیام کا حق رکھتے ہیں اور چونکہ انہوں نے کسی قسم کی غیر قانونی حرکت نہیں کی ہے اس لئے ہمیں ان کو ملک بدر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بھارتی جریدے دی ہندو نے تسلیم کیا ہے کہ بھارتی حکومت کو ملائیشیائی وزیر اعظم مہاتیر محمد کے اس بیان اور حوالگی سے انکار سے شدید تکلیف پہنچی، کیونکہ جس دن مہاتیر محمد نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھارت کے حوالہ کرنے سے منع کیا اس کے اگلے روز انہوں نے ذاکر نائیک سے ملاقات کرکے تصاویر بنوائیں اور بھارت کو واضح پیغام دیا کہ ملائیشیا کسی بھی قیمت پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی حوالگی کیلئے رضامند نہیں ہے۔ واضح رہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ڈاکٹر ذاکر نائیک کی حوالگی کے کیس کو ذاتی طور پر خود دیکھ رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ 2019ء میں الیکشن سے قبل وہ ذاکر نائیک کو لازمی بھارت لے آئیں۔ تاکہ الیکشن میں ان کی ایک اور کامیابی کو اُجاگر کیا جائے اور اس کا انتخابی فائدہ اُٹھایا جائے۔
٭٭٭٭٭