محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات میں پہلی بار انخلا کے حوالے سے بھی بات کی گئی۔ معتبر ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں افغان طالبان نے امریکہ کو محفوظ انخلا کی ضمانت دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ تاہم افغانستان میں الیکشن تک جنگ بندی کی پیشکش مسترد کردی گئی ہے۔ واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں افغان طالبان کے وفد کی قیادت ملا عبدالسلام حنفی، شہاب الدین دلاور، عباس استنکزئی اور سہیل شاہین نے کی۔ جبکہ امریکی وفد میں زلمے خلیل زاد، سی آئی اے، نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی اور امریکی فوج پر مشتمل چھ رکنی ارکان شامل تھے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق جمعہ کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات میں طالبان نے اپنے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی جانب سے منظور کردہ ڈرافٹ خلیل زاد کے سامنے رکھا۔ ذرائع نے بتایا کہ پہلی بار طالبان اور امریکی حکام کے درمیان انخلا کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ جس میں افغان طالبان نے امریکی فوج کو محفوظ انخلا کا راستہ دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ مذاکرات میں شامل افغان طالبان کے وفد سے وابستہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مذاکرات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئے اور زلمے خلیل زاد نے بعض مواقع پر دری اور پشتو میں طالبان سے بات کی اور بتایا کہ امریکہ انخلا میں سنجیدہ ہے۔ جس پر طالبان نے کہا کہ امریکہ کو انخلا کیلئے ٹائم ٹیبل دینا چاہیے۔ تاہم خلیل زاد نے کہا کہ وہ وقت نہیں دے سکتے، تاہم تین سال کے اندر یہ انخلا ہو جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر زلمے خلیل زاد نے الیکشن تک جنگ بندی کی بھی پیشکش کی۔ لیکن افغان طالبان کے وفد نے کہا کہ جب تک انخلا کی تاریخ نہیں دی جائے گی، جنگ بندی ممکن نہیں۔ جس پر ذرائع نے بتایا کہ خلیل زاد نے نومبر میں امریکہ میں ہونے والے مڈ ٹرم انتخابات کے بعد افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے ٹائم ٹیبل دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ذرائع کے بقول جواباً طالبان کی جانب سے کہا گیا کہ جب ٹائم ٹیبل دے دیا جائے گا، جنگ بندی کے حوالے سے بھی بات کرلی جائے گی۔ علاوہ ازیں زلمے خلیل زاد کی یہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی ہے کہ افغان طالبان اخوان المسلمین یا ترکی کی طرز پر سیاسی جماعت نہیں بنیں گے اور نہ ہی ان کے منشور کو اپنائیں گے۔ تاہم طالبان نے واضح کیا کہ قرآن و سنت ہی ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ البتہ اس بات کی ضمانت دینے پر آمادگی ظاہر کی کہ افغان سرزمین کسی کے لئے نہیں استعمال ہو گی اور نہ ہی طالبان افغانستان سے باہر اہداف رکھتے ہیں۔ دنیا کے ممالک بشمول پڑوسی ممالک کو افغانستان کے ساتھ تجارت کی اجازت ہوگی۔ تاہم کوئی بھی ملک افغانستان میں کسی دوسرے ملک کے خلاف سرگرمیاں جاری نہیں رکھے گا۔ ذرائع کے مطابق خلیل زاد نے افغان طالبان سے پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بھی کھل کر بات کی، جس پر طالبان نے انہیں بتایا کہ یہ ساری باتیں بعد کی ہیں۔ امریکہ انخلا کرنا چاہے تو اس کیلئے محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ پھر افغان طالبان کی سیاسی قیادت امریکی انخلا کے لئے محفوظ راستہ بھی دینے کی مجاز نہ ہو۔ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت افغانستان میں طالبان کے اثر رسوخ اور کنٹرول میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب یہ کنٹرول 80 فیصد سے بڑھ جائے گا تو پھر فیصلوں کا اختیار بھی فوجی کمانڈروں کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور افغان طالبان کے عسکری کمانڈرز امریکہ کو انخلا کا محفوظ راستہ دینے پر تیار نہیں ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے امریکی حکام کو یہ بھی یاد دلایا کہ اس جنگ کا 18 واں سال شروع ہو گیا ہے، جو ویتنام جنگ سے تقریباً دو سال کم عرصہ ہے۔ اگر امریکہ نے انخلا سے انکار کیا تو طالبان مزید پچاس سال لڑ سکتے ہیں۔ اب افغان طالبان کی کمانڈ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، جو افغانستان پر امریکی حملے کے وقت صرف دس برس کے تھے۔ افغان جنگجوئوں میں وہ لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں، جو امریکی حملے کے بعد پیدا ہوئے۔ ذرائع کے مطابق زلمے خلیل زاد نے امریکی پروفیسروں کی رہائی کیلئے بھی اپیل کی، تاہم اس پر طالبان نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی کو رہا کردیا جائے تو امریکی پروفیسرز کی رہائی پر بات کی جا سکتی ہے۔ ’’امت‘‘ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جمعہ کے روز ہونے والے ان مذاکرات کے فوری بعد زلمے خلیل زاد نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے ملاقات کی اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 2020ء میں امریکی انتخابات سے قبل ہی انخلا کا ٹائم ٹیبل دیا جائے گا، تاکہ ری پبلکن امیدوار کو انتخابات میں کامیابی دلوائی جائے۔ تاہم اگر ری پبلکن امیدوار کانگریس اور سینیٹ میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو وسط مدتی انتخابات کے بعد ہی انخلا کے ٹائم ٹیبل کا اعلان کر دیا جائے گا۔