نمائندہ امت
قصور کی سات سالہ مقتولہ زینب کے والد محمد امین انصاری کا کہنا ہے کہ معاشرے میں سدھار کی خاطر انہوں نے اپنی بیٹی کے قاتل عمران کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے ہفتے کے روز لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی کہ زینب سمیت کئی بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے مجرم عمران کو سر عام پھانسی دی جائے۔ واضح رہے کہ سفاک قاتل عمران کو پھانسی دینے کیلئے بدھ 17 اکتوبر کا اعلان کر کے بلیک وارنٹ جاری کئے جا چکے ہیں۔ جبکہ زینب کے والد کی مذکورہ رٹ کی سماعت آج (پیر کے روز) لاہور ہائی کورٹ میں ہوگی۔ محمد امین انصاری، ان کے اہل خانہ اور عوامی حلقے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مجرم عمران، جس کے سنگین جرائم پر عدالت نے اسے پھانسی دینے کی سخت سزا تمام تر شواہد اور اس کے خلاف ثبوت پیش کئے جانے کے بعد سنائی ہے، کے ہولناک جرائم نے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے۔ اس لئے اس سنگ دل مجرم کو ایسا نشان عبرت بنایا جائے کہ نہ صرف پورا معاشرہ اور اس ذہینت کے سفاک لوگ سبق حاصل کریں، بلکہ بچے بچیاں بھی آئندہ کیلئے محفوظ ہوں۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں جب مقتولہ زینب کے والد محمد امین انصاری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرنے کیلئے لاہور میں تھے اور بہت مصروف تھے۔ بڑی مشکل سے مقتولہ زینب کے ماموں حافظ محمد عمران کی وساطت سے امین انصاری سے رابطہ ممکن ہو سکا۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ… ’’عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے، ہم اس پر مطمئن ہیں۔ لیکن یہ شکوا بھی ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد میں چند ماہ کی تاخیر ہوئی، جس کے ذمہ دار سابق صدر ممنون حسین اور سابق وفاقی سیکریٹری داخلہ ہیں۔ زینب کے قاتل نے سپریم کورٹ سے رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد صدر مملکت کو رحم کی اپیل کی تھی۔ اس کی یہ اپیل دو ماہ تک سیکریٹری داخلہ نے اپنے پاس روکے رکھی اور ایوان صدر نہیں بھجوائی۔ ہمارے بار بار رابطہ کرنے کے بعد وہاں سے 26 جون کو یہ درخواست ایوان صدر بھجوائی گئی اور چھ جولائی کو سابق صدر ممنون حسین کی میز پر پہنچ گئی۔ لیکن انہوں نے ہمارے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود کوئی فیصلہ نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ رخصت ہوگئے۔ پھر ہم نے نئے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو بذریعہ خط درخواست بھجوائی کہ اس اپیل پر فیصلہ کریں۔ جس پر انہوں نے ظالم درندے کی اپیل مسترد کی اور قاتل کے بلیک وارنٹ جاری ہو سکے‘‘۔ ایک سوال پر محمد امین انصاری نے کہا کہ ’’ہماری بیٹی اور ہمارے ساتھ جو ہوا، ہم نے اسے اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔ ہماری خواہش اور دعا ہے کہ آئندہ پوری قوم کے بچے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالی سورۃ نور کی دوسری آیت میں بھی حکم دیتے ہیں کہ مجرموں کو سرعام سزا دو، تاکہ باقی لوگ عبرت پکڑیں۔ نبی کریمؐ کی احادیث میں بھی سر عام سزا دیئے جانے کے احکامات موجود ہیں۔ مدنی معاشرے میں بڑے مجرموں کو، خاص طور پر سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو چوکوں، چوراہوں اور کھلی جگہوں پر سزائیں دی جاتی تھیں تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور جرائم کرنے سے باز رہیں۔ سعودی عرب، یمن اور ایران وغیرہ میں اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے وہاں جرائم کی شرح کم ہے۔ جبکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ آئے روز ہم سنتے ہیں کہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی اور انہیں قتل کر دیا گیا۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ جو اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور اسی معاشرے میں رہتے ہیں، ان کا دل ایسے جرائم پر نہیں کڑھتا اور وہ ایسے اقدامات نہیں کرتے جن سے اس طرح کے گھنائونے جرائم میں کمی واقع ہو۔ بدقسمتی سے ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہر شخص کا دل اس طرح کے جرائم پر کڑھتا ہے۔ اسی لئے عوام کی بھی دلی تمنا ہے کہ ظالم مجرم کو جو انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں، اسے سرعام پھانسی دے کر نشان عبرت بنایا جائے۔ تاکہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں۔ جرائم پیشہ عناصر نے معاشرے کا سکون چھین لیا ہے۔ جب تک مجرموں کے ساتھ اسلامی قوانین کے مطابق سخت گیر رویہ نہیں اپنایا جائے گا، اس وقت تک جرائم کو نہیں روکا جاسکتا۔ ہم مجرم کو نشان عبرت بنا کر معاشرے میں امن و سکون چاہتے ہیں۔ اگر اس طرح کے چند مجرموں کو سر عام لٹکا دیا جائے تو ایسے جرائم کا سلسلہ رک جائے گا۔ میری خواہش ہے کہ ایسے اقدامات ہوں کہ آئندہ کوئی بچی کسی درندے کا نشانہ نہ بن سکے‘‘۔