سدھارتھ شری واستو
بھارتی وائلڈ لائف حکام نے بتایا ہے کہ مہاراشٹر کی آدم خور شیرنی توقع سے زیادہ چالاک، ہوشیار اور خونخوار ہو چکی ہے، جس سے نمٹنے کیلئے تمام شکاریوں اور ہتھیاروں کی ناکامی کے بعد سائنسی تحقیق کے ماہرین کے مشوروں پر عمل کیا جارہا ہے۔ حکام نے پرفیوم تیار کرنے والی ایک معروف کمپنی کی خوشبو ’’اوبسیشن‘‘ کی درجن بھر شیشیاں خرید کر وائلڈ لائف کے حوالے کر دی ہیں، جن کے ذریعے ایوت محل/ مہاراشٹر کے جنگلات میں ایک درجن شکاری ٹیمیں ’’ٹی ون‘‘ نامی شیرنی کو جال میں پھانسنے کی کوشش کریں گی۔ بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے ہی وہ پرفیومز کی شیشیوں کو پنجرے میں اسپرے کرکے رکھیں گے تو ان کو سونگھنے والی آدم خور شیرنی مست ہوجائے گی اور اس خوشبو کو تلاش کرتے ہوئے دیوانہ وار پنجرے میں کھنچی چلی آئے گی، جس کے بعد اس پنجرے کا دروازہ الیکٹرونک ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبا کر بند کردیا جائے گا اور یوں 13 انسانوں کو کھاجانے والی اور 14 کو شدید زخمی کرنے والی اس آدم خور شیرنی کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے گا۔ نیو یارک پوسٹ کی ایک کی رپورٹ سے علم ہوا ہے کہ پہلی بار اوبسیشن نامی پرفیوم کا شیروں اور شیرنیوں پر اثر اس وقت محسوس ہوا جب 2010ء میں ایک نوجوان یہ خوشبو لگاکر نیویارک کے برونکس زولوجیکل گارڈن میں شیروں کے پنجرے کے قریب گیا۔ اس پرفیوم کی خوشبو سے شیر اور شیرنیاں مست ہوگئے اور لوٹنیاں لگانے لگے۔ اس غیر معمولی دریافت کی جانچ کے بعد سائوتھ افریقہ میں جنگلی تیندوئوں اور انسانوں کے درمیان علاقوں کے حصول کی جنگ کے دوران کئی تیندوئوں کو پکڑنے کیلئے اسی پرفیوم کو جالوں میں لگا کر استعمال کیا گیا اور نتیجہ انتہائی حیرت انگیز رہا۔ کیونکہ وہ خوشبو سے کسی غیر مرئی طاقت کے زیر اثر محسوس ہونے لگے اور اس پنجرے کی طرف کھنچے چلے آئے، جس میں کیلون کلائین کا اوریجنل اوبسیشن پرفیوم لگایا گیا تھا۔ گجرات، راجستھان، ممبئی، آسام اور تلنگانہ ریاستوں میں شیروں کی جبلی کیفیت پر کام کرنے والے کئی بھارتی سائنٹیفک و ریسرچ حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2,000 افراد اور شکاریوں کی مدد سے اس آدم خور شیرنی کو پکڑنے یا مارنے کی سینکڑوں کوششیں کی ہیں، لیکن یہ تمام کاوشیں ناکام رہی ہیں، کیونکہ یہ انتہائی چالاک ہے۔ اس شیرنی کو زندہ پکڑنے کیلئے پنجروں کے اندر بکرے بکریاں، بچھڑوں اور دیگر جانوروں کو بند کرکے 500 سے زائد پھندے یا شکنجے بھی نصب کئے جاچکے ہیں، لیکن شیرنی اس علاقے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ان پنجروں یا پھندوں سے یکسر دور رہی۔ جس سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ چار سال کی یہ مادہ شیرنی انتہائی چالاک اور ہوشیار ہوچکی ہے اور انسانی جسم کی بو سونگھ کر اس علاقے میں نہیں آتی۔ جس کے بعد اس شیرنی کو شکار کرنے کیلئے پرفیوم مشہور خاص اوبسیشن کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ محکمہ جنگلات کی 1000 رکنی ٹیم کے ارکان سینکڑوں کیمروں، درجنوں خاص قسم کے جالوں، سو سے زیادہ بندوق برداروں، چار ڈرونز اور دو پیرا گلائیڈرز کی مدد سے ٹی ون نامی اس آدم خور شیرنی اور اس کے دو بچوں کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کیلئے دو ماہ سے جنگلات میں گھوم رہے ہیں، لیکن ان کو ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ بھارتی جریدے ٹیلیگراف انڈیا نے ایک دلچسپ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مہاراشٹر کے ایوت محل جنگلات میں آنے والے معروف بھارتی شکاری نواب شفاعت علی خاں نے اس آدم خور شیرنی کو ہلاک کرنے کیلئے اپنا کیمپ بھی لگایا تھا لیکن کم از کم پانچ مقامات پر کیمپ لگانے اور اکھاڑنے کے بعد نواب صاحب نے شیرنی کو شکار کرنے سے معذرت کرلی، کیونکہ شیرنی انتہائی ہوشیار ہے۔ لیکن اب بھارتی وائلڈ لائف حکام نے اس شیرنی کو پکڑنے کیلئے ماہرین کی درخواست پر اوبسیشن کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے جس کی مدد سے ماضی قریب میں بھارتی حکام نے تین شیرنیوں کو گرفتار کیا۔ بھارتی جریدے ماتھر بھومی نے بتایا ہے کہ کیلون کلائین کے پرفیوم کا پہلا شکار ضلع مانڈیا، ریاست کرناٹکا میں کیا گیا اور پرفیوم کی مدد سے آدم خور مادہ چیتا پکڑی لی گئی۔ دوسرے واقعہ میں ریاست تامل ناڈو میں جنگلاتی ضلع گوڈولورو میں ایک اور آدم خور شیر کو پنجرے میں پرفیوم لگا کر قید کیا گیا۔ جبکہ تلنگانہ میں کیلون کلائین کے اوبسیشن پرفیوم سے ایک اور آدم خور شیرنی گرفتار کی گئی ہے اور اب مہاراشٹر کے حکام ایوت محل میں سب سے خطرناک قرار دی جانے والی اس آدم خور شیرنی کو پکڑنے کیلئے پر اُمید ہیں۔ واضح رہے کہ اوبسیشن نامی فرانسیسی ساختہ اس پرفیوم میں جنگلی بلے/ اودبلائو کے جسم سے حاصل کئے جانے والے غدودوں کا مواد یا مغلظ مادہ شامل ہے اور اس قسم کا اوریجنل پرفیوم سینکڑوں ڈالرز میں دستیاب ہے۔ اس قسم کی خوشبو خالصتاً مردوں کے استعمال کیلئے بنائی جاتی ہے۔ مقامی جریدے تلنگانہ ٹوڈ ے نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اوبسیشن نامی اس پرفیوم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس کی خوشبو جنگلات کی فضا میں جب ہوا چل رہی ہو تو 10 کلومیٹر دور تک جانور محسوس کرلیتے ہیں اور جب ہوا نہیں چل رہی ہو تو بھی اس کی مسحور کن خوشبو کو شیروں اور شیرنیوں کی جانب سے دو کلومیٹر کی دوری تک محسوس کرلیا جاتا ہے اور وہ اس خوشبو کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔
Next Post