تیز رفتاری بھلوال میں 6 طالبات کی جان لے گئی

0

نمائندہ امت
اسلام آباد لاہور موٹر وے پر واقع سالم انٹر چینج کے قریب سرگودھا گجرات روڈ پر کالج وین اور مسافر بس کے تصادم میں چھ طالبات اور وین ڈرائیور سمیت سات افراد جاں بحق ہوگئے۔ صبح کے تقریباً آٹھ بجے یہ حادثہ تیز رفتاری اور وہاں واقع ایک موڑ پر اوور ٹیکنگ کرتے ہوئے پیش آیا۔ اس حادثے میں ایئر کنڈیشنڈ بس نے مخالف سمت سے آنے والے کیری ڈبے (بولان) کو بالکل کچل دیا، جس میں طالبات بیٹھی تھیں۔ نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کا بس ڈرائیور موقع سے فرار ہو گیا۔ حادثے کے بعد بھلوال کے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم اس علاقے کے درجنوں طلبا اور مقامی افراد نے ٹریفک بلاک کر دی اور طالبات کی وین سے ٹکرانے والی بس کو آگ لگا دی۔ یہ بس ساٹھ سے زائد مسافروں کو لے کر خوشاب سے لاہور جا رہی تھی۔ اس بس کو سالم انٹر چینج سے موٹر وے پر داخل ہونا تھا، لیکن انٹرچینج سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر پہلے ’’مقیم موڑ‘‘ پر حادثے کا شکار ہوگئی۔ بھلوال سے سابق رکن اسمبلی اور سابق ضلعی ناظم مرزا آصف علی کے مطابق ’’مقیم موڑ‘‘ پر اس سے پہلے بھی متعدد حادثات ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے اس موڑ کو ’’خونی موڑ‘‘ کہنا بے جانہ ہوگا۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ناظم یوسی مرزا آصف علی کا کہنا تھا کہ ’’یہ دیہی علاقہ ہے۔ بھلوال گجرات اور سرگودھا کے درمیان واحد بڑا شہر اور تجارتی و تعلیمی مرکز ہے۔ روزانہ بلامبالغہ ہزاروں طلبا و طالبات بھلوال کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کے لئے آتے ہیں۔ ہزاروں افراد روزگار کے لیے شہر آتے ہیں۔ اس لئے گجرات روڈ پر بھی بہت رش ہوتا ہے۔ ان دنوں تقریباً تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کا صبح کا ٹائم ساڑھے آٹھ بجے کا ہے۔
جبکہ جاں بحق ہونے والا ڈرائیور ابھی شہر سے دس گیارہ کلو میٹر دور ’’مقیم موڑ‘‘ پر تھا۔ اس نے شہر کے مختلف کالجوں میں ان طالبات کو ٹائم پر پہنچانا تھا۔ لیکن چونکہ کچھ لیٹ تھا، لہٰذا اس نے غالباً تیز رفتاری کا مظاہرہ کیا، جو حادثے کا سبب بنا‘‘۔ مقامی افراد کے مطابق یہاں مختلف اضلاع کے درمیان چلنے والی ٹریفک اور مقامی ٹریفک کا بھی بہت رش ہوتا ہے۔ یہ موڑ کافی بڑا ہے، لیکن تیز رفتاری کی وجہ سے پہلے بھی یہاں کئی حادثات ہو چکے ہیں۔ حالیہ واقعے میں وین ڈرائیور نے ایک موٹر سائیکل کو اوور ٹیک کرنے کی کوشش کی اور سامنے سے آنے والی بس کی رفتار کا اندازہ نہ کر سکا، جس کی وجہ سے تصادم ہوا۔ تیز رفتار بس اور وین اتنی زور سے ٹکرائیں کہ اس کی آواز دور تک سنائی دی۔
حادثے میں جاں بحق ہونے والی طالبات مختلف کالجز میں زیر تعلیم تھیں۔ عروہ ریاض، فاطمہ شجاع اور آصفہ کا تعلق ہیڈ فقیریاں سے تھا۔ انعم زہرہ اور سحرش کا تعلق سالم سے، جبکہ امان سعید کا تعلق میانہ گوندل سے تھا۔ وین ڈرائیور ذوالفقار بھی ہیڈ فقیریاں کا رہائشی تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق ڈرائیور اور دو طالبات کے چہرے بری طرح مسخ ہوگئے اور ناقابل شناخت تھے۔ حادثے کے فوری بعد طلبہ اور مقامی افراد نے سڑک بلاک کر دی تھی۔ ان لوگوں نے پہلے حادثے کا سبب بننے والی بس کے شیشے توڑے۔ بعد میں اسے آگ لگا دی گئی۔ بھلوال اور سرگودھا کی تحصیل و ضلع انتظامیہ موقع پر پہنچ گئی۔ لاشیں فوری طور پر تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال منتقل کی گئیں، جبکہ تین شدید زخمی کو اسلام آباد و سرگودھا کے اسپتالوں کو بھجوایا گیا۔ حادثے کے بعد ’’مقیم موڑ‘‘ کے دونوں اطراف ٹریفک کی کئی کلو میٹر لمبی لائنیں لگ گئی تھیں۔ انتظامیہ نے ایک متبادل راستہ، ’’دیووال روڈ‘‘ کے ذریعے ٹریفک کو بحال کیا، جس کے بعد مسافر اپنی منزلوں کی جانب روانہ ہوئے۔ سہ پہر کوئی تین بجے کے وقت مقامی اور چھوٹی گاڑیوں کو گزرنے کی اجازت دی گئی، جبکہ جس نجی معروف ٹرانسپورٹ کمپنی کی بس حادثے کا سب بنی، اس کی بسوں کو جو مغرب یا مشرق سے اس سڑک کی جانب آرہی تھی، آگے بڑھنے سے روک دیا گیا، تاکہ مشتعل افراد اس بس یا اس کے مسافروں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے متعلقہ تھانہ پھلر وان کے ایس ایچ او انسپکٹر ذیشان اقبال نے کہا کہ صبح کے وقت ہر گاڑی والے کو بروقت اپنی ڈیوٹی یا اپنے مقام پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ سینکڑوں موٹر سائیکلیں اور وہ گاڑیاں جو اس مصروف روڈ پر دودھ بھی لے جا رہی ہوتی ہیں، وہ بھی متعدد بار تیز رفتاری کی وجہ سے حادثات کا شکار ہو چکی ہیں۔ یہ حادثہ بھی کالج وین کی تیز رفتاری اور بس کے ڈرائیور کی بے احتیاطی کی وجہ سے پیش آیا، جس سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ایک سوال پر انسپکٹر ذیشان کا کہنا تھا کہ بس کا ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا تھا۔ جبکہ جس نجی کمپنی کی یہ بس تھی، اس نے بھی کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود رابطہ نہیں کیا۔ بس کے مسافر بس کو آگ لگائے جانے سے قبل اپنا سامان نکال کر منزل کی جانب روانہ ہوگئے تھے۔ انسپکٹر ذیشان اقبال کے مطابق جو طالبات حادثات کا شکار ہوئی ہیں، ان کے گھر یہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھے۔ ارد گرد اکثر دیہاتوں کے لوگ، طلبا اور نوجوان پولیس کے ساتھ ہی موقع پر پہنچ گئے تھے۔ ہماری پہلی ترجیح زخمی طالبات کو اسپتال میں پہنچانا تھا، لہذا ریسکیو ٹیموں کی مدد سے یہ کام سب سے پہلے کیا گیا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More