احمد خلیل جازم
شیخ چوگانی ضلع گجرات سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر گجگراں نامی ایک قصبہ ہے۔ اس قصبے سے باہر ویرانے میں ایک اور نو گز لمبی قبر ہے، جس کے بارے میں مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ’’یہ حضرت موسیٰ حجازی پیغمبر کا مزار ہے، اور آپ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوبؑ کی اولاد میں سے ہیں‘‘۔ اس قبر کے بارے میں بھی خواجہ گوہرالدین نے کشف القبور کے ذریعے انکشاف کیا۔ یہ مزار ہیڈ مرالہ روڈ سے کافی ہٹ کر ہے۔ اس تک پہنچے کے لیے راستہ مکمل طور پر کچا ہے، اور ویرانہ اس قدر ہے کہ دن کے اوقات میں بھی کوئی ذی روح اس طرف آتا جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن جب مزار پر پہنچتے ہیں تو ایک عجب سماں دکھائی دیتا ہے۔ پرسکون اور خوشگوار حیرت سے دو چار کرتی یہ جگہ اپنی مثال آپ ہے۔
ہمارے ہمراہ شیخ ضیا اور محمد آصف مرزا بھی تھے۔ آصف مرزا جو ٹانڈہ کا رہائشی ہیں، کا کہنا تھا کہ ہیڈ مرالہ روڈ سے اکثر دن میں دو تین بار بھی ان کا گزر ہوتا ہے، لیکن اتفاق سے وہ اس مزار تک کبھی نہیں آئے۔ جبکہ شیخ ضیا کا مزار کی طرف آنا جانا زیادہ رہتا ہے۔ شیخ ضیا کا کہنا ہے ’’مہینے میں ایک بار یہاں محفل سماع منعقد کی جاتی ہے اور اس محفل میں خواجہ گوہرالدین کے پوتے میاں ارشد شرکت کرتے ہیں۔ لاہور، وزیرآباد اور شیخوپورہ سمیت ملک کے دیگر کئی شہروں سے اس روز لوگ مزار پر جمع ہوتے ہیں اور سارا دن عبادات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ محفل سماع رات کو شروع ہوتی ہے اور ایسی زبردست محفل ہوتی ہے کہ ہر انسان پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔ یہ محفل فجر کی اذان کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ برس ہا برس سے چل رہا ہے۔ اس مزار کی دیکھ بھال مکمل طور پر خواجہ گوہرالدین کے خاندان کے پاس ہے اور گزشتہ ایک صدی سے یہ خاندان اس مزارکی نہ صرف دیکھ بھال کر رہا ہے بلکہ مزار کے سامنے ایک شاندار مسجد بھی تعمیر کرائی گئی ہے، جو علاقے بھر کی خوبصورت ترین مساجد میں شمار ہوتی ہے‘‘۔ اس میںکوئی شبہ نہیں کہ جب ’’امت‘‘ ٹیم مزار پر پہنچی تو سب سے پہلے ایک پرشکوہ مسجد پر نگاہ پڑی۔ خوبصورت سفید رنگ کی مسجد کی چھت کے دونوں کناروں پر درمیانے سائز کے مینار ہیں اور ان مینار کے درمیان اللہ کا اسم شریف اس قدر تمکنت سے جلوہ افروز ہے کہ دیکھنے والے کی نگاہ نہیں ہٹتی۔ مسجد کے سامنے کچھ کمرے بنائے گئے ہیں، جن میں مسافروں کے ٹھہرنے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ جبکہ اسی کے ساتھ کچھ فاصلے پر وضو خانے بھی ہیں۔ وضوخانے خلاف توقع مسجد سے خاصی دور واقع ہیں، جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ انسان کو مزار اور مسجد تک آنے کے لیے دور سے پاک ہوکر آنا ضروری ہے۔ مسجد کی سیڑھیوں اور مزار سے کچھ دوری پر ایک قدیم درخت اپنی پوری آب و تاب سے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ پیپل کا درخت دیگر پیپل کے درختوں سے یکسر مختلف ہے۔ اس کے آٹھ کے قریب تنے ہیں جن کے اردگرد اینٹوں سے دائرہ کھینچ کر ایک چبوترہ بنا دیا گیا ہے۔ جتنے بھی قدیم مزارات دیکھے گئے وہاں قدیم ترین درختوں اور پانی کا ہونا اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ ان بزرگ ہستیوں اور گھنے درختوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جبکہ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ حضرت موسیٰ حجازی کے مزار سے کچھ دور دریائے چناب ہے۔ اس مزار کی نشان دہی بھی لگ بھگ سو برس قبل کی گئی، جس کی بعد ازاں دیگر صوفیائے کرام اور کشف القبور پر عبوررکھنے والوں نے تصدیق کی۔ مزار مسجد کے عین عقب میں واقع ہے۔ لیکن مزار تک جانے کے لیے خوبصورت ٹائیلوں سے راستہ بنایا گیا ہے۔ جیسے ہی ان ٹائیلوں پر قدم رکھا چار پانچ قدموں کے بعد ایک چھوٹا سا بورڈ نصب دکھائی دیا، جس پر لکھا ہے ’’جوتے یہاں اتار دیں‘‘۔ چنانچہ مزار سے دور سو ڈیڑھ سو قدموں کے فاصلے پر جوتے اتار دیئے گئے۔ یہ چھوٹا سا خوبصورت راستہ، نازک اور چھوٹے چھوٹے پودوں سے سجایا گیا ہے، جس کے دائیں جانب مسجد کے عقب میں پہلے کچھ قبریں دکھائی دیں اور بائیں جانب گھنے درخت اور جھاڑیاں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہیں۔
صاحبِ مزار کی نشان دہی کے حوالے سے شیخ ضیا کا کہنا تھا ’’یہاں کچھ برسوں سے لوگوں کا آنا جانا بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ رمضان اور شب برات کے دن اور خاص طور پر عیدین کے دنوں میں بہت لوگ مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ دیگر کوئی بھی مذہبی تہوار ہو، تو لوگ دعا کے لیے ضرور آتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان نسل یہاں زیادہ آتی ہے۔ ان کا لگائو حضرت موسیٰ حجازی سے حیران کن حد تک زیادہ ہے۔ یہ مزار قریباً سو برس قبل تعمیر کے مرحلے سے گزرا۔ اسے بعد ازاں خواجہ گوہرالدین کے پوتے میاں ارشد نے اپنی نگرانی میں نئے سرے سے تعمیر کرایا۔ دراصل مزار کی چھت وغیرہ تو پہلے کی ڈال دی گئی تھی، بعد میں اس پر سنگ مرمر لگوایا گیا، اور اس کے اردگرد احاطے میں بھی سنگ مر مر کے ٹائیل لگوائے گئے۔ یہ مسجد بھی ایک برس قبل اسی وقت تعمیر کرائی گئی‘‘۔ اسی گفتگو کے دوران مزار کے بیرونی دروازے پر پہنچے تو ایک چھوٹا سا گیٹ احاطے میں داخلے کے لیے بانہیں وا کیے ہوئے تھا۔ قریباً پانچ قدم بعد مزار کا دروازہ تھا، جو کھلا ہوا تھا۔ مزار نہایت خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اندر حضرت موسیٰ حجازی کی نو گز لمبی قبر پر سبز رنگ کی چادر بچھی ہوئی ہے، جس کے نیچے غالباً کالی چادر بھی ڈالی گئی ہے کہ ان کے کونے بھی باہر جھانکتے دکھائی دیئے۔ شیخ ضیا کا کہنا ہے کہ ’’کشف القبور کے علم رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ حضرت موسیٰ حجازی کا جسد مبارک زیادہ نیچے نہیں ہے۔ بلکہ دیگر بزرگوںکی نسبت زمین کی سطح سے زیادہ قریب ہے‘‘۔ مزار کے اطراف دس عدد روشن دان نما کھڑکیاں تھیں، جو کم از کم چھ فٹ اونچائی پر بنائی گئی ہیں۔ اندر دیواروں پر ہلکے زرد رنگ کے پھولوں والے وال پیپر لگے ہوئے ہیں، جن سے صوفیانہ رنگ عود رہا ہے۔ قبر کے عین وسط میں چھت سے خوبصورت فانوس لٹک رہا ہے، جبکہ سرہانے سبز اور لال رنگ کا کلاہ رکھا ہوا ہے، جس پر کلمہ طیبہ اور اللہ کا اسم درج ہے۔ شیخ ضیا کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس مزار کی تصدیق کی بھی عجب روایت ہے۔ حضرت خواجہ گوہرالدین پیدائشی ولی کہلاتے تھے۔ انہوں نے کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی۔ یہاں موجود متولی خالد صاحب اس پر مزید روشنی ڈالیں گے۔ چنانچہ ہم مزار سے نکل کر خالد کے پاس جا پہنچے جو مہمان خانوں کے ساتھ ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ اس کمرے میں ایک چارپائی رکھی تھی اور ساتھ ہی چٹائی بچھی ہوئی تھی۔ خالد اس چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ شیخ ضیا نے ہمارا تعارف کرایا، تو خالد نے ہمیں چٹائی پر بیٹھنے کے لیے کہا، جبکہ وہ خود چارپائی پر ہی دراز رہے۔ بعد میں پتا چلا کہ خالد بیمار تھے اور ایک موذی مرض سے لڑ رہے تھے۔ خالد نے بتایا کہ ’’حضرت خواجہ گوہرالدین کو صاحبِ مزار نے خود بلایا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ خواجہ صاحب یہاں سے گزر کر شیخ چوگانی حضرت طانوخؑ کے مزار پر جایا کرتے تھے۔ اس قبر کے ساتھ کچا راستہ گزرتا تھا، جس پر خواجہ صاحب کا آنا جانا لگا رہتا۔ ایک روز مریدین کے ساتھ شیخ چوگانی سے واپسی پر جب اس جگہ سے گزرے تو پیچھے سے آواز آئی۔ اس وقت قبر ٹیلے پر واقع تھی اور اس کے اردگرد پتھر رکھ کر مزار کی شکل دی گئی تھی۔ لوگوں کو نام تو معلوم نہ تھا لیکن یہ معلوم تھا کہ یہاں کوئی صاحبِ کرامت شخصیت دفن ہے۔ خواجہ صاحب رک گئے اور ایک مرید سے کہا کہ جاکر دیکھو کون آواز دے رہا ہے۔ مرید جب اس جگہ پہنچا تو اسے قبر سے آواز سنائی دی۔ اسے صرف صاحبِ مزار کا نام سمجھ آسکا، لیکن دیگر کوئی بات سمجھ نہ آئی۔ کیونکہ آپ عبرانی زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔ مرید واپس آیا اور خواجہ صاحب سے کہا کہ نام کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آتی، کوئی نامانوس زبان ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب نے مرید سے کہا، اب جائو زبان سمجھ آئے گی۔ چنانچہ جب وہ دوبارہ وہاں پہنچا تو اب مرید کو صاحبِ مزار کی زبان سمجھ آنا شروع ہوگئی۔ آپ نے اپنا شجرہ نسب بیان کیا اور بتایا کہ میں یعقوبؑ کی نسل سے ہوں اور اللہ کا نبی ہوں۔ چنانچہ بعد ازاں خواجہ گوہرالدین خود وہاں پہنچے اور صاحبِ مزار سے کشف القبور کے ذریعے گفتگو کرنے کے بعد مزارکی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا۔ یوں حضرت موسیٰ حجازی کے مزارکی تعمیر ہوئی۔ یہیں سے آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے ایک حقیقی بھائی وہ بھی پیغمبر ہیں، موضع ریحان میں مدفون ہیں اور ان کا نام صفدان ہے۔ مزار کی تعمیر، جس طرح صاحب مزار نے فرمایا اسی طرح تعمیر کرائی گئی‘‘۔ حضرت گوہرالدین نے اس کے بعد یہاں کیا کام کیا، اور مستقبل میں اس صاحبِ مزار سے لوگوں نے کیا فیض اٹھایا، اس کی تفصیل دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭