امت رپورٹ
سابق صدر پرویز مشرف نے مقدمات کی سماعت سے بچنے کیلئے اپنی سات آٹھ بیماریوں کا میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کیا تھا۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے ان کو پاکستان طلب کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وطن آمد پر انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا، تو سوشل میڈیا پر ان کی خطرناک بیماری کے حوالے سے خبریں گردش کرنے لگی ہیں۔ جن میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پرویز مشرف ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ جبکہ مشرف کی بیماری سے متعلق عدالت میں دیئے گئے تصدیق شدہ میڈیکل سرٹیفکیٹ کی تفصیلات بھی میڈیا میں آئی ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ مشرف کو ’’امیلوئی ڈوسس‘‘ نامی خطرناک بیماری لاحق ہے اور اس کا مسلسل علاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ امیلوئی ڈوسس ایسا مرض ہے جو شاذ و نادر ہی کسی کو ہوتا ہے۔ اس مرض میں جسم کی بافتوں (ٹشوز) میں پروٹین کا ابنارمل ارتکاز ہو جاتا ہے، جس سے دل ، گردے، جگر، پھیپھڑے، آنتیں، جلد، اعصاب اور جسمانی جوڑ بری طرح متاثر ہوجاتے ہیں۔ دبئی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرف کا روزانہ کی بنیاد پر علاج نہ ہونے سے جان کو خطرہ ہے، جبکہ وہ دل اور بلڈ پریشر کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف کا علاج برطانیہ کے دو معروف اسپتالوں کے ساتھ مل کر کیا جا رہا ہے اور ان کی تھراپی کا عمل یومیہ بنیاد پر ایک سال جاری رہے گا۔ پرویز مشرف کے میڈیکل سرٹیفکیٹ کی دبئی میں پاکستانی قونصلیٹ سے تصدیق کرائی گئی ہے۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق مشرف کو لا حق بیماری جان لیوا ہے۔ تاہم اس رپورٹ کو خفیہ رکھے جانے کی وجہ سے بھارتی میڈیا نے بھی مشرف کو ایڈز ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ جبکہ بعض پاکستانی صحافی بھی یہی دعویٰ کر رہے ہیں۔ صحافی زاہد گشکوری نے ٹویٹ کیا کہ مشرف مہلک بیماری میں مبتلا ہیں اور ایک انٹرنیشنل اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ٹی وی اینکر وجاہت خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ جب آخری بار مشرف سے ملاقات ہوئی تو وہ بیماری کے خلاف لڑ رہے تھے۔ دبئی میں موجود صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ پرویز مشرف یقیناً کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں، جس کا انکشاف ان کی ساکھ کیلئے خطرناک ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے سابق صدر کی وطن واپسی کے حوالے سے جواب جمع کرایا۔ اختر شاہ نے سپریم کورٹ سے کہا ’’گزارش ہے کہ پرویز مشرف کے مرض کو صیغہ راز میں رکھیں‘‘۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس مرض کے مریض پاکستان میں بھی ہیں۔ اختر شاہ نے دلائل دیئے کہ اگر مشرف کا آنا ضروری ہے تو انہیں ڈاکٹر سے ملنے کی اجازت دی جائے اور ان کا نام ای سی ایل میں نہ ڈالا جائے۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پرویز مشرف کو پاکستان آنے دیں، کوئی گرفتار نہیں کرے گا۔ وہ غداری کیس میں 342 کا بیان ریکارڈ کرائیں۔ ان خبروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چیف جسٹس جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کس مرض میں مبتلا ہیں، جس کے مریض پاکستان میں بھی ہیں اور اس مرض کو جواز بنا کر پرویز مشرف پاکستان واپس آنے سے انکار کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ مشرف نے ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کے خاندان کو وضاحت کرنا پڑے گی کہ مشرف کو کیا بیماری لاحق ہے۔ پرویز مشرف کو لاحق مہلک بیماری کے حوالے سے تازہ ترین انکشاف اس وقت سامنے آیا جب ان کیخلاف غداری کیس کیلئے بنائی گئی خصوصی عدالت نے پیر کے دن پرویز مشرف کا دبئی میں بیان ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے قبل پرویز مشرف کو پیشکش کی گئی تھی کہ وہ ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرا دیں۔ لیکن پرویز مشرف نے یہ پیشکش مسترد کردی تھی۔ اس پر خصوصی عدالت نے دبئی میں پرویز مشرف کی رہائش گاہ پر جاکر بیان ریکارڈ کرنے کیلئے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسی کو اعتراض ہے تو اس کمیشن کو ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پرویز مشرف 75 سال کے ہوگئے ہیں اور وہ مارچ 2016ء سے دبئی میں مقیم ہیں۔ 2007ء میں آئین کو معطل کرنے کے سنگین جرم کی پاداش میں ان پر غداری کا مقدمہ 2014ء میں قائم کیا گیا تھا۔ پرویز مشرف اپنے علاج کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر گئے اور ابھی تک واپس نہیں لوٹے۔ جب بھی انہیں عدالت کی جانب سے طلب کیا جاتا ہے تو وہ اپنی بیماری کا جواز پیش کرنے کیلئے پاکستان آنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خود کو لاحق سیکورٹی خدشات کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔ عدالت نے اب پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے کیلئے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو دبئی جاکر پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرے گا۔ تاہم کمیشن کے ارکان کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭