مرزا عبدالقدوس
قصور کی ننھی پری زینب سمیت کئی بچیوں کا قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ لیکن مقتولہ زینب کی والدہ کا دکھ ابھی ختم نہیں ہوا۔ وہ عمران علی کو دی گئی سزا کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ مجرم کو سر عام سزا دی جاتی اور اس درندے کا نشانہ بننے والی تمام بچیوں کے لواحقین سمیت معاشرے کے تمام باضمیر افراد اس وحشی مجرم کو سنگسار کرتے۔ مقتولہ زینب کے ماموں حافظ عمران نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ… ’’میری بہن ہم سے بھی ناراض ہیں کہ ہم نے میڈیا پر یہ کیوں کہا کہ انصاف ملنے پر ہم مطمئن ہیں۔ ان کے نزدیک سفاک مجرم کو جیل میں پھانسی دینے کے بجائے سرعام سنگسار کیا جانا چاہئے تھا۔ اس کی لاش چوک میں لٹکائی جاتی، تاکہ وہ نشان عبرت بنتا اور اس سے ہمدردی کرنے والے بھی دنیا میں رسوا ہوتے۔ زینب کی والدہ کے بقول ملکی نظام نے انہیں مکمل انصاف نہیں دیا‘‘۔ حافظ محمد عمران، زینب قتل کیس میں مقتولہ کے والد امین انصاری کے قدم بہ قدم ساتھ رہے۔ انہوں نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجرم عمران علی نے تختہ دار پر جاتے ہوئے مقتولہ زینب کے والد امین انصاری کی طرف گھور کر دیکھا تھا۔ اس کے چہرے پر ندامت کے کوئی آثار نہیں تھے۔ جبکہ اس کی فیملی کو بھی کوئی پشیمانی نہیں۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ ہمارا نہیں تو انسانیت کا ساتھ دیتے ہوئے اس درندے کی لاش وصول کرنے سے ہی انکار کر دیتے۔ ماضی میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں کہ بدنام زمانہ مجرموں کے رشتہ داروں نے ان کی لاشیں وصول کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں انتظامیہ نے دفن کیا۔ اگر قاتل عمران کے اہل خانہ بھی ایسا ہی کرتے تو قصور کے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا کہ واقعتاً یہ لوگ عمران علی کے فعل سے ناراض ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے اور قصور کے عوام بھی جانتے ہیں کہ مجرم عمران کا چچا افضل، جو اس کی لاش لینے کیلئے جیل پہنچا تھا، عمران نے اس کی بیٹی کے ساتھ بھی زیادتی کی تھی۔ جب زینب کے قتل کے بعد مجرم کی جیکٹ کی پشت پر لگے دو بٹنوں سے اس درندے کو پہچاننے کی کوشش ہوئی، تو اس کی والدہ نے وہ جیکٹ چھپا دی تھی۔ بعد میں ایک موقع پر یہ لوگ آپس میں منصوبہ بندی بھی کرتے رہے کہ عمران علی کی بطور مجرم نشاندہی کرکے انعام کا ایک کروڑ روپیہ وصول کرلیں۔ وہی عزیز جیل سے اس کی لاش لینے آئے تھے، لیکن میڈیا سے منہ چھپاتے پھر رہے تھے‘‘۔
واضح رہے کہ کوٹ لکھپت جیل انتظامیہ کی جانب سے زینب کی فیملی کے چھ افراد کو قاتل کی پھانسی کے موقع پر جیل آنے کیلئے کہا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ لوگ جب جیل کے گیٹ پر پہنچے تو صرف زینب کے والد محمد امین انصاری کو اندر آنے کیلئے کہا گیا۔ اس پر انہوں نے بھی احتجاجاً اندر جانے سے انکار کر دیا، جس پر تمام چھ افراد کو جیل کے اندر تو بلا لیا گیا، لیکن پھانسی گھاٹ تک صرف امین انصاری کو لے جایا گیا۔ پھانسی گھاٹ سے دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ جیل سپرنٹنڈنٹ، مجسٹریٹ اور جیل کے ڈاکٹر کے ساتھ امین انصاری کو بھی ایک کرسی پیش کی گئی۔ پانچ بج کر25 منٹ پر مجرم عمران کو پولیس اہلکار پکڑ کر لائے۔ پھانسی گھاٹ کے ارد گرد مسلح نفری بھی موجود تھی۔ مجرم عمران پھانسی گھاٹ تک جاتے ہوئے چند فٹ کے فاصلے سے امین انصاری کو گھورتے ہوئے گزرا۔ اس کے چہرے پر ندامت یا پشیمانی کا احساس نہ تھا اور نہ اس نے زینب کے والد سے معافی مانگنے کی کوشش کی۔ لیکن جب تختہ دار پر اس کا چہرہ کپڑے سے لپیٹا جانے لگا تو اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی اور بڑبڑایا، لیکن اسے خاموش کرا دیا گیا۔ ٹھیک ساڑھے پانچ بجے وہ تختہ دار پر جھول گیا۔ نصف گھنٹے بعد ڈاکٹر کی جانب سے تصدیق کئے جانے پر چھ بجے اس کی لاش پھانسی گھاٹ سے نکال کر اسٹریچر پر ڈال دی گئی۔ جو بعد میں اس کے سگے چچا افضل اور چھوٹے بھائی کے حوالے کردی گئی۔ ذرائع کے مطابق مجرم عمران کی لاش اس کے ورثا پولیس کی نگرانی میں قصور سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور فیروز پور روڈ پر واقع گاؤں ’کمان‘ میں لے گئے، جہاں ان کے کچھ رشتہ دار رہائش پذیر ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ کی نگرانی میں تدفین کے انتظامات پہلے ہی کرلئے گئے تھے۔ لاش پہنچنے کے ایک گھنٹے کے اندر اس کی تدفین کردی گئی۔ مقامی افراد کے مطابق قصور میں واقع مجرم عمران کا گھر سرکاری زمین پر قبضہ کر کے بنایا گیا ہے اور اس کی رجسٹری بھی ان کے پاس نہیں ہے۔ عمران کی گرفتاری کے بعد سے اس گھر پر تالا پڑا ہوا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس دوران ایک دو مرتبہ عمران کے چچا اور بھائی وغیرہ اس گھر میں آئے، لیکن کبھی رات کو قیام نہیںکیا۔ کیونکہ ان سے پولیس نے تحریری یقین دہانی حاصل کی تھی کہ امن و امان اور فساد کے خطرے کے پیش نظر وہ اس گھر پر نہیں رہیں گے۔ اس لئے نہ صرف انہوں نے کسی اور جگہ رہائش اختیار کرلی، بلکہ موبائل نمبر بھی تبدیل کر لئے۔ اس دوران یہ لوگ مجرم عمران کا کیس لڑنے کی جرأت تو نہیں کر سکے، لیکن انہوں نے مختلف عدالتوں اور انتظامیہ کو یہ درخواستیں جمع کرائیں کہ انہیں زینب کے لواحقین خصوصاً محمد امین انصاری اور حافظ عمران سے خطرہ ہے۔ اس لئے انہیں سیکورٹی فراہم کی جائے۔ بعد میں عدالت کی طلبی پر زینب کے اہلخانہ نے وضاحت پیش کی اور عدالت کو صورت حال سے آگاہ کیا تو کیس خارج ہوگیا۔ اس کے بعد امین انصاری نے ڈی پی او کو درخواست دی کہ یہ لوگ یہاں آکر مختلف مقامات پر دن کے اوقات میں کھڑے ہوتے ہیں اور انہیں گھورتے ہیں۔ کسی دن لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے اشتعال میں آکر ان کو یا ان کے مکان کو نقصان پہنچایا تو ہم ذمہ دار نہ ہوں گے، اس لئے ان کی آمد کو سختی سے روکا جائے۔ جس کے بعد ان لوگوں نے پولیس سرزنش کے بعد آنا بند کیا۔
تختہ دار پر لٹکنے والے مجرم عمران کا چچا افضل اور بھائی دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ اس کی میت لینے آئے تھے، جو سرکاری انتظامیہ اور پولیس کی نگرانی میں قصور لے جائی گئی۔ یہ لوگ پھانسی کے وقت جیل کے باہر موجود تھے۔ میت اندر سے ایمبولینس میں باہر لاکر ان چار افراد کو بھی ایمبولینس میں بٹھا لیا گیا، جس کے بعد ایمبولینس اور پولیس کی دو گاڑیاں فیروزپور روڈ کی طرف روانہ ہوگئیں۔ مجرم کے ورثا اس موقع پر میڈیا اور کیمروں سے منہ چھپاتے رہے اور کسی نے کوئی بات نہیں کی۔
مقتولہ زینب کے ماموں حافظ محمد عمران نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا مطالبہ تھا کہ درندہ صفت مجرم کو سر عام پھانسی دی جاتی۔ ہم نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ کم از کم سرکاری ٹی وی چینل کو ہی پھانسی کا منظر دکھانے کا حکم دیا جائے۔ لیکن عدالت نے یہ استدعا بھی مسترد کر دی، جس کا افسوس ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭