اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )مسلم لیگ ن کوبڑادھچکالگ گیا،ارکان پارلیمنٹ کی دہری شہریت کے معاملے میں سپریم کورٹ نے سینیٹر ہارون اختر اور سینیٹر سعدیہ عباسی کو نااہل قرار دے دیا ہے۔اور دونوں سینیٹرز کی کامیابی کا نوٹی فیکیشن واپس لینے اور ان نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم دیدیا ہے۔عدالتِ نے حکم دیا ہے کہ سینیٹر چودھری سرور کی جانب سے شہریت ترک کرنے کے سرٹیفکیٹ کی تصدیق کرائے جائیں۔اسکے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایم این اے نزہت صادق کے امریکی شہریت چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ کی بھی تصدیق کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ نے احکامات جاری کیے ہیں کہ وزارتِ خارجہ ایم این اے نزہت صادق اور چودھری سرور کے پارلیمنٹ سرٹیفکیٹس کی تصدیق کرا کے رپورٹ دے۔چیف جسٹس کی سربراہی سات رکنی عدالتی بنچ کیس کی سماعت کی۔ سینیٹر ہارون اختر کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہارون اختر پیدائشی پاکستانی شہری ہیں تیس سال قبل کینڈا کی شہریت حاصل کی۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ کینڈین شہریت چھوڑنے کا بیان حلفی عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔چیف جسٹس ہمیں بیان حلفی نہیں شہریت ترک کرنے کا سرٹیفیکٹ دکھائیں۔ وکیل نے کہا کہ ابھی شہریت ترک کرنے کا سرٹیفیکٹ نہیں ملا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو بات واضح ہو گی ہم کل بھی ایک فیصلہ کر چکے، کیا ہارون اختر اج بھی دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کینڈین قانون کے مطابق اب بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ کینڈین قانون کے مطابق آپ کی بات درست ہے، میری اکیس معروضات ہیں جو عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ تین منٹ کا کیس ہے علی ظفر صاحب اپ اسکو کہاں سے کہاں لیکر جارہے ہیں، آپ چاہتے ہیں ہم ساری رات اس کیس پر عدالت لگا کر بیٹھے رہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ علی ظفر ہر چیز کو بتیس بار چبانا ضروری نہیں، سیدھا مدعے پر آئیں۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن سعدیہ عباسی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سعدیہ عباسی دوہری شہریت چھوڑ چکی ہیں، سعد عباسی کا شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی آ چکا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سعدیہ عباسی نے جس دن کاغذات نامزدگی داخل کئے اس دن وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں، شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ کاغزات نامزدگی داخل کرنے کے بعد کا ہے، امیدوار کی اہلیت کے لیے ارٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر پڑھا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دستور کے ارٹیکل 62 اور 63 ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں، آرٹیکل 63 کی روح یہ ہے دوہری شہریت کا حامل ممبر پارلیمنٹ نہ بنے، کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے قبل شہریت ترک کرنے کا عمل مکمل ہونا چاہیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دہری شہریت اس وقت ترک تصور ہو گی جب متعلقہ ادارہ سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایسا شخص ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا جو دو کشتیوں میں سوار ہو، ممبر پارلیمنٹ صرف ایک کشتی میں سواری کرسکتا ہے اور وہ کشتی صرف پاکستان کی شہریت ہونی چاہیے۔ جسٹس عظمت سعید نے پوچھا کہ کیا سعدیہ عباسی کاغذات نامزدگی کے وقت سینیٹ کا الیکشن لڑنے کی اہل تھیں؟ وکیل نے کہا کہ برطانیہ دہری شہریت والے کو بھی ممبر پارلیمنٹ بننے کی اجازت دیتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ نے آئین تبدیل کرنا ہے تو کر دیں، سعدیہ عباسی کی نشست پر دوبارہ الیکشن کروائیں، دہری شہریت کے حامل دوسرے ملک کی شہریت چھوڑ کر الیکشن لڑ لیں۔