کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو)سندھ میں نئے ڈائریکٹر جنرل کی آمد کے بعد نیب متحرک ہو گیا، متعدد سابق اور موجودہ وزرا کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا رواں ماہ کے آخر تک سندھ کی حکمراں جماعت کی اہم شخصیات کے قانون گرفت میں آنے کے امکانات بڑھ گئے۔ سابق صوبائی وزیرقانون کے خلاف ثبوتوں کی تلاش میں نیب نے محکمہ قانون و انصاف میں کھوج تیز کر دی۔محکمہ قانون و انصاف سے ایڈووکیٹ جنرل آفس کراچی، حیدرآباد اورسکھر میں 2008 سے ہونے والی بھرتیوں کی تفصیلات طلب کر لی گئیں ۔اسپیشل پراسیکیوٹرز سے متعلق فراہم کردہ معلومات کو نیب نے نامکمل قرار دے دیا، درست معلومات فراہم کرنے کی تنبیہہ کی گئی ہے۔ سابق وزیر بلدیات جام خان شورو کے خلاف بھی ٹھوس شواہد حاصل کر لئے ۔دوسری جانب محکمہ قانون و انصاف نے نیب کی تحقیقات کے دوران ہی پی پی پی کے ایک اہم وکیل کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 38 کروڑ روپے کی ادائیگی کی منظوری دے دی۔ تفصیلات کے مطابق ڈی جی کراچی کی تبدیلی کے ساتھ ہی کراچی میں نیب متحرک ہو گیا ہے اور 2008 سے سندھ میں بر سر اقتدار حکمراں جماعت کے سابق اور موجودہ وزرا کے خلاف کرپشن کے کیسز کی تفتیش تیز کر دی ہے اور رواں ماہ کے آخر تک حکمراں جماعت کی اہم شخصیات کی گرفتاری کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ نیب نے کرپشن کی اطلاعات پر سابق صوبائی وزیر قانون ضیا الحسن لنجار کے خلاف ثبوتوں کی کھوج میں محکمہ قانون و انصاف کے مختلف شعبوں میں تحقیقات شروع کر دی ہے۔ نیب حکام نے 2014 تا 2018 تک محکمہ انصاف کی طرف سے اسپیشل پراسیکیوٹرز کی تعیناتی کے سلسلے میں فراہم کی جانے والی معلومات پر عدم اطمنان کا اظہار کر تے ہوئے ایک اور لیٹر جاری کر دیا ہے۔ جاری کئے جانے والے دوسرے لیٹر میں مزید ایک اور پروفارما جاری کرتے ہوئے محکمہ قانون و انصاف کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ درست اور مکمل معلومات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون و انصاف کی طرف سے نیب تحقیقات کے دوران ہی سپریم کورٹ کی طرف سے نجی وکلا کی خدمات لینے پر پابندی عائد کئے جانے کے باوجود پی پی پی سے وابستہ ایک اہم وکیل کو مختلف محکموں کے مقدمات کی پروی پر 38 کروڑ روپے ادا کرنے کی منظوری دے دی ہے ،جبکہ اس سے قبل بھی اس وکیل کو محکمہ ریونیو کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے پر کروڑوں روپے وصول کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں جب قانون و انصاف کے متعلقہ حکام سے مجموعی مقدمات کی تعداد اور ادئیگیوں سے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے تفصیلات کی فراہمی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس مہنگے وکیل کا تقرر مختلف محکموں کی سفارش پر کیا جاتا رہا ہے، تاہم مقدمات کی تعداد اور ادائیگیوں کی تفصیلات یکجا نہیں کی گئی ہیں۔ مزید تفصیلات کے لئے جب سیکریٹری قانون و انصاف شارق احمد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ سیٹ پر نہیں ہیں۔ دوسری جانب نیب حکام نے ایڈووکیٹ جنرل کے کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں قائم دفاتر میں ہونے والی بھرتیوں کی تھی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے اور اس سلسلے میں قانون و انصاف سے تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ قانون و انصاف نے ایڈووکیٹ جنرل کے دفاتر میں بھرتیوں سے متعلق تفصیلات مانگ لی ہیں ،جس کے جواب میں لکھے گئے لیٹر No.AG.5623/2018 کے ذریعے محکمے کو تمام تفصیلات ارسال کر دئیے ہیں جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 2008 سے ہونے والی تمام بھرتیوں کے سلسلے میں تمام قانونی تقاضے پورے جاتے رہے ہیں۔ دوسری جانب سابق صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو کے خلاف 3 انکوائریوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جام خان 62 سرکاری پلاٹوں کی غیر قانونی نیلامی میں ملوث ہیں۔ انہوں نے پلاٹس اپنے فرنٹ مین اوشاک راہوجو کے نام منتقل کرائے۔ جام خان شورو پر الزام ہے وہ کے ڈی اے کے 19 پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ میں مبینہ طور پر ملوث ہیں ،جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ سال مارچ میں ہونے والی پلاٹوں کی نیلامی کے اشتہار میں مذکورہ پلاٹ نمبر ایس بی 1، 2 ،3 ، 11 اور 12 کا ذکر ہی نہیں تھا ،جبکہ ریکارڈ کے مطابق ان پلاٹوں کو 33 ہزار روپے فی گز کے حساب سے نیلام کیا گیا۔حالانکہ ان پلاٹوں کی مارکیٹ ویلیو 75 ہزار روپے فی مربع گز تھی اور اس طرح چار سو مربع گز کے فی پلاٹ کی قیمت کم از کم 30 کروڑ روپے سے زائد تھی لیکن اسے ملی بھگت کے ذریعے محض فی پلاٹ ایک کروڑ 32 لاکھ روپے میں جعلی نیلامی کے نام پر فروخت کیا گیا ۔نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ پلاٹوں کی غیر قانونی نیلامی میں سابق ڈی جی کے ڈی اے ناصر عباس پہلے سے گرفتار ہیں ،جس نے نیب کو رضاکارانہ طور پر اہم شواہد فراہم کئے ہیں۔ذرائع کے مطابق ان سرکاری پلاٹوں کی نیلامی سے قومی خزانے کو ایک ارب 80 کروڑ کا نقصان ہوا۔ سابق صوبائی وزیر جام خان پر ڈی ایم سی ملیر میں فرنٹ مین کے ذریعے رشوت لینے کا الزام بھی ہے۔ذرائع کے مطابق سابق ایڈمنسٹریٹر ڈی ایم سی ملیر عبدالرشید اور محمد انور سابق وزیر جام شورو کے فرنٹ مین کے طور پر جانے جاتے ہیں جو افسران سے ماہانہ رشوت لیتے تھے۔نیب ذرائع کے مطابق نیب نے ڈی ایم سی ملیر کے اکاؤنٹس آفیسر بابو مل کو بھی حراست میں لیا تھا ،جس سے اہم ریکارڈ برآمد کیا گیا تھا۔ بابو مل کو نیب حکام نے طلب کر کہ مسلسل کئی گھنٹے پوچھ کچھ کی تھی ،جس میں اس نے کرپشن سے متعلق کئی راز فاش کئے۔ بابو مل بلدیہ شرقی میں ہونے والی کرپشن میں بھی ملوث بتائے جاتےہیں۔ذرائع کے مطابق قمر شیخ کے بلدیہ غربی میں بطور ایڈمنسٹریٹر تعیناتی کے دران کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی ،جس کا بہت بڑا حصہ سابق صوبائی وزیر کو فراہم کیا جاتا رہا۔ بلدیہ غربی میں جاوید قمر کو قمر شیخ کے فرنٹ مین کے طور پر جانا جاتا تھا ،جہاں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈز میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے ساتھ بڑی تعداد میں غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں۔ قمر شیخ جب ڈائریکٹر لینڈ حیدرآباد تعینات ہوئے تو وہاں بھی قیمتی اراضی کی بندر بانٹ کی گئی جس سے حاصل ہونے والی رشوت کا بڑا حصہ سابق صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو کو پہنچایا جاتا تھا۔ قمر شیخ کی نشاندہی پر سابق سیکریٹری بلدیات کے پی ایس رمضان سولنگی کو بھی حراست میں لیا گیا جنہوں نے تحقیقات کے دوران نیب کو سابق وزیر بلدیات کی کرپشن سے متعلق اہم ثبوت فراہم کئے۔ نیب کا کہنا ہے کہ جام خان شورو نے ٹھٹہ میں 262 ایکڑ اراضی غیر قانونی طریقےسے حاصل کی، انیںک تینوں انکوائریوں کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔واضح رہے کہ نیب نے اکتوبر 2017 میں جان خان شورو کے خلاف سرکاری زمینوں پر غیر قانونی قبضے کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔دریں اثنا نیب نے سابق صوبائی وزیر جام خان شورو کے بھائی کاشف شورو کے خلاف سرکاری زمین پر قبضے کی تحقیقات شروع کر رکھی ہے جس کو بھی نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔
کراچی(اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائیکورٹ نے سابق صوبائی وزیر بلدیات اور رکن سندھ اسمبلی جام خان شورو کی جانب سے نیب کی انکوائری میں عبوری ضمانت سے متعلق دائر درخواست پر انہیں 10لاکھ روپے کی25 اکتوبر تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔فاضل عدالت نے نیب کو متعلقہ انکوائریز کی آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ جمعرات کو جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سر براہی میں جسٹس شمس الدین عباسی کی پر مشتمل 2رکنی بنچ نےدرخواست کی سماعت کی ۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ نیب اان کے خلاف جھوٹے کیسز بنا کر ہراساں کر رہا ہے۔ ان کا گلستان جوہر میں 62 پلاٹوں کی غیر قانونی نیلامی اور ملزمان سابق ایڈمنسٹریٹر ڈی ایم سی ملیر عبدالرشید اور محمد انورسے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیب ان کے خلاف ٹھٹہ کے دیہہ کوہستان جھمپیر میں واقع262ایکڑ زمین کی بھی انکوائری کر رہا ہے۔ نیب افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزارنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہوئے بڑے پیمانے پر کرپشن کی چیئرمین نیب نے درخواست گزار کے وارنٹ جاری کردئیے ہیں ،جس پرعدالت نے استفسار کیا کہ جب آپ کو کورٹ نے نہیں بلایا تو پھر کیوں آگئے؟اس نیب افسر معذرت کرتے ہوئے کمرہ عدالت سے باہر چلا گیا۔