اومنی گروپ کی شوگر ملیں کھلوانے کیلئے آبادگاروں کو استعمال کرنے کا منصوبہ

0

کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) آبادگاروں کے مفادات کے تحفظ کی آڑ میں اومنی گروپ کی سربمہر8 شوگر ملیں چلوانے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ،جبکہ آبادگار بورڈ کے رہنما کا کہنا ہے کہ سندھ میں گنے کی پیداوار کم ہونے کے باعث باقی 26 شوگر ملیں بروقت کرشنگ شروع کردیں تو کافی ہوگا۔ اس مرتبہ بھی سندھ میں گنے کے نرخ طے کرنے کا معاملہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔آبادگاروں کا مطالبہ ہے کہ فی من گنے کی امدادی قیمت 200 روپے مقرر کی جائے ،جبکہ ملز مالکان 160 روپے کو بحال رکھنے کے حق میں ہیں۔گنے کے نرخ طے کرنے والے بورڈ کے قیام کیلئے تیمور تالپر کے وزیر بن جانے کے باعث اسپیکر سندھ اسمبلی سے نیا نام مانگا گیا ہے۔ اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں شوگر ملوں کی تعداد 38ہے، جن میں سے 4 ملیں پہلے ہی بند پڑی ہوئی ہیں ،جبکہ باقی 34 شوگر ملوں میں سے نوڈیرو شوگر مل، پیارو گوٹھ (دادو) شوگر مل، لاڑ، کھوسکی، چمبڑ، انصاری شوگر مل سمیت 8لیں اومنی گروپ کے زیر انتظام ہیں۔ ایف آئی اے کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس اورمنی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے اومنی گروپ کے انور مجید ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کی گرفتاری کے بعد مذکورہ شوگر ملوں کو سربمہر کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے ان میں سے بعض ملوں پر چھاپے مارکر ریکارڈ بھی ضبط کیا ہوا ہے۔ سندھ میں اب گنے کا کرشنگ سیزن شروع ہونے والا ہے۔ اس صورتحال میں مذکورہ شوگر ملوں کے چلنے میں قانونی رکاوٹ ہے کیوں کہ جعلی اکاؤنٹس او رمنی لانڈرنگ اسکینڈل میں مذکورہ ملوں کو بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بعض اہم شخصیات نے مذکورہ ملوں کو چلانے کی عدالت سے اجازت حاصل کرنے کیلئے بعض آبادگاروں کو آگے لانے کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ اس ضمن میں یہ موقف آسکتا ہے کہ8 شوگر ملیں بند ہونے سے آبادگاروں کا نقصان ہوگا۔اس سے باقی ملوں کی اجارہ داری بڑھ جائے گی اور مقابلے بازی کا رجحان ختم ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ متعلقہ علاقوں کے آبادگاروں کو اپنے علاقے کے بجائے تھوڑا دور پڑنے والی ملوں تک گنا لے جانا پڑے گا۔ جس سے ان کے اخراجات بھی بڑھیں گے۔ اس لئے آبادگاروں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اومنی گروپ کی ملوں کو بھی گنے کی کرشنگ کرنے کی اجازت دی جائے، جبکہ اس ضمن میں رابطہ کرنے پر سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما عبدالمجید نظامانی نے کہا کہ رواں سال بارشیں نہ ہونے اور خریف میں بھی پانی کی قلت وغیرہ کی وجہ سے خشک سالی بڑھی ہے ،جس سے دیگر فصلوں کی طرح گنے کی فصل بھی زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ گنے کو مطلوبہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے اس کی فی ایکڑ پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سیزن کے مقابلے میں رواں سیزن کے دوران گنے کی پیداوار 30سے35فیصد تک کم ہوگی اور اس صورتحال میں اومنی گروپ کے علاوہ باقی شوگر ملیں بروقت کرشنگ شروع کردیں تو اس سے آبادگاروں کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 برس کے دوران فی من گنے کی قیمت 160روپے کے حساب سے آبادگاروں کا نقصان ہوا ہے۔ اس مرتبہ فی من گنے کی قیمت 200 روپے سے کم نہیں ہونی چاہئے اور اس ضمن میں ہم تفصیلات متعلقہ سرکاری حکام کو دے چکے ہیں۔ دریں اثنا ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں حقیقی طور پر گنے کے کرشنگ سیزن کی شروعات 15 اکتوبر سے ہوئی ہے ،یہ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے گنے کی قیمت طے کرنے اور کرشنگ سیزن شروع کرنے کے حوالے سے آبادگاروں اور شوگر ملز مالکان کے درمیان تنازعات اور اس حوالے سے صوبائی حکومت کی جانب سے بروقت موثر اقدامات نہ کرنے کے باعث گنے کی کرشنگ دو سے ڈھائی ماہ تاخیر سے شروع ہوتی رہی ہے ،جس سے آبادگاروں کو نقصان اور ملز مالکان کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ گنے کی کرشنگ ہر صورت میں 15 نومبر سے شروع ہوجانے کو یقینی بنانے کیلئے صوبائی حکومتوں کو کہا جائے گا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ گنے کے نرخ اور کرشنگ کی تاریخ طے کرنے کے امور وفاقی نہیں بلکہ صوبائی ہیں اور اس ضمن میں حتمی فیصلہ متعلقہ صوبائی حکومتیں متعلقہ اداروں کے توسط سے ہی کرسکتی ہیں ،تاہم وفاقی کابینہ کی جانب سے فیصلہ کرنے کے باعث پنجاب اور کے پی کے میں 15 نومبر سے گنے کی کرشنگ شروع ہوجانے کا امکان ہے کیونکہ مذکورہ صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں ،تاہم اس کا اخلاقی طور پر اثر سندھ پر بھی پڑے گا ،کیونکہ پنجاب کے مقابلے میں سندھ میں گنے کی کرشنگ 15روز قبل شروع ہوتی اور دیگر فصلوں کی طرح پنجاب کے مقابلے میں جنوبی سندھ اور وسطی سندھ میں گنے کی فصل 15دن پہلے تیار ہوجاتی ہے۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صوبائی ضرور ہے ،لیکن جب پنجاب میں کرشنگ سیزن کا آغاز ہوجائے گا تو سندھ کے شوگر ملز مالکان کو بھی اس طرح گنے کی کرشنگ شروع کرنا پڑے گی۔ علاوہ ازیں سندھ میں گنے کے نرخ طے کرنے کیلئے ابھی تک بورڈ کا قیام مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔اس حوالے سے صوبائی وزیر زراعت کی سربراہی میں بننے والے بورڈ میں آبادگاروں، شوگر ملز مالکان کی جانب سے نامزد کردہ نمائندوں کے ساتھ 2 اراکین سندھ اسمبلی بھی ممبر کی حیثیت سے شامل ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اسپیکر سندھ اسمبلی نے 2 اراکین سندھ اسمبلی کے نام محکمہ زراعت کو ارسال کئے تھے ،جن میں ایک خاتون رکن شاہینہ اور عمرکوٹ سے منتخب پیپلز پارٹی کے رکن تیمور تالپر کے نام شامل تھے، بورڈ کے اراکین کے نام کی منظوری کیلئے محکمہ زراعت نے وزیر اعلیٰ سندھ کو سمری ارسال کردی ہے۔ تاہم تیمور تالپر کے صوبائی وزیر بن جانے کے باعث اب ان کی جگہ اسپیکر سندھ اسمبلی کو کسی اورایم پی اے کو نامزد کرنے کی سفارش کی جائے گی۔ اسپیکر سے نام ملنے اور وزیراعلیٰ ہاؤس سے سمری منظور ہونے کے بعد بورڈ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے گا۔ اس ضمن میں صوبائی محکمہ زراعت کے حکام آباد گاروں اور شوگر ملز مالکان سے الگ الگ میٹنگ کرچکے ہیں ،جس میں آبادگاروں کا مطالبہ ہے کہ 2 برس قبل بھی حکومت سندھ نے فی من گنے کی امدادی قیمت 182 روپے مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جسے ملز مالکان نے قبول نہیں کیا ،بعدازاں آبادگاروں کو فی من گنے کی قیمت 160 روپے ملی۔ گزشتہ سیزن کے دوران بھی معاملہ عدالت تک جاپہنچا، خکومت اس مرتبہ فی من گنے کی امدادی قیمت 200 روپے مقرر کرے ،کیونکہ کھاد، بجلی اور دیگر اشیا مہنگی ہونے سے گنے کی کاشتکاروں کے اخراجات بڑھ گئے ہیں ،جبکہ اس ضمن میں شوگر ملز مالکان نے موقف اختیار کیا ہے کہ گنے کی قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے ،کیونکہ فی کلو گرام چینی کے ایکس مل نرخ صرف 2 روپے اضافے کے ساتھ 47 روپے ہوئے۔ اس لئے فی من گنے کی قیمت میں زیادہ اضافہ برداشت نہیں کرسکتے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More