وزیر خانم کے طرز تخاطب اور لہجے پر حبیب النسا تھوڑا گھبرائی اور سنجیدہ منہ بنا کر بولی۔ ’’قربان جائوں۔ میں سمجھی نہیں‘‘۔
’’اری نیک بخت، اب میری عمر خصم کرنے کی ہے کہ نواب مرزا کے لیے چاند سی بہو لانے اور شاہ محمد آغا صاحب کو پالنے پوسنے اور اللہ اللہ کرنے کی؟‘‘۔
’’اللہ کون سی عمر ہوئی ہے آپ کی۔ ابھی تو آپ کا سر ہر مہینے اسی طرح میلا ہوتا ہے جیسا تب تھا جب آپ ہمارے نواب صاحب کے یہاں…‘‘۔
’’چپ، یہ سب باتیں مجھے پسند نہیں۔ اری کچھ سوچ، دنیا کیا کہے گی؟ اور ان شہزادوں کا کیا ہے، کل کلاں کسی اور کو میرے سر پر لا بٹھا دیں گے… اور میں شاہ محمد آغا کو چھوڑنے والی ہرگز نہیں ہوں۔ قلعہ جائے بھاڑ میں، میری کٹیا ہی مجھے بہت ہے‘‘۔
’’بے شک اپنا گھر سب پر بھاری ہے۔ لیکن میرزا فتح الملک بہادر… سبھی جانتے ہیں کہ وہ بہت متین اور بردبار شہزادے ہیں۔ وہ آپ کو گھر لائیں گے تو بے شک نباہیں گے ہی‘‘۔
’’یہ تمہیں کیسے معلوم؟‘‘۔
’’اے وہ بزرگوں میں کہاوت نہیں مشہور کہ بیاہ نہیں کیا برات تو دیکھی ہے۔ ولی عہد سوئم کے احوال، ان کے نیک چلن سب پر ظاہر ہیں۔ وہ کوئی اچھال چھکوں میں کھیلنے والے رئیس تھوڑی ہیں‘‘۔
’’اور نواب مرزا اور شاہ محمد آغا؟‘‘۔
’’ان کا کیا ہے خانم صاحب۔ اللہ رکھے نواب مرزا بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ ولی عہد سوئم جیسا کوئی بڑا شخص آپ کا ہاتھ پکڑ لے تو آپ کے آنسو کچھ پچھ جائیں گے… ویسے آپ ان سے مشورہ ضرور کر لیں‘‘۔
’’لیکن قلعے والے اگر نواب مرزا اور شاہ محمد آغا کو لینے پر تیار نہ ہوئے تو؟‘‘۔
’’حبیبہ ایک لحظہ خاموش رہی۔ ’’دیکھئے، میری سمجھ میں تو یہی آتا ہے کہ ماشاء اللہ نواب مرزا بڑے باپ کے بیٹے ہیں، ہونہار ہیں، آگے چل کر بزرگوں کا نام روشن کریں گے۔ انہیں تو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ہاں ننھے میاں صاحب کے لیے شاید شروع میں کچھ رکاوٹ ہو… تو میں تو حاضر ہی ہوں، میں انہیں بخوشی پال لوں گی‘‘۔
’’نہیں، تجھے تو میں اپنے پاس ہی رکھوں گی… ننھی سی جان ماں کو ہڑکے گا نہیں؟‘‘۔
’’کوئی آپ دکن یا کابل تھوڑا ہی جارہی ہیں…‘‘
’’بڑی باجی پال لیں گی، کہہ رہی تھیں‘‘۔
’’لیجئے پھر تو کچھ پھیر ہی نہ رہا‘‘۔
’’مجھے لگتا ہے بڑی باجی قول ہار چکی ہیں، انہوں نے میرا کچھ خیال نہ کیا‘‘۔
’’قول تو وہ ہرگز نہیں ہار سکتیں۔ جو بھی آپ کو جانے ہے وہ یہ بھی جانے ہے کہ ان باتوں میں آپ کسی کے کہنے میں نہیں ہیں۔ لیکن یہ تو ہے کہ وہ دل سے چاہتی ہوں گی کہ آپ بادشاہ کی بہو بنیں‘‘۔
وزیر خانم بڑی دیر تک سر جھکائے رہی۔ اس کی پلکوں پر دو تارے جھلملائے اور ٹپک کر اس کے گریبان میں جذب ہو گئے۔ حبیبہ اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر آہستہ آہستہ سہلاتی رہی۔ بالآخر وزیر نے سر اٹھایا، دوپٹے سے آنکھیں خشک کیں اور ٹھنڈی سانس لے کر کہا: ’’حبیبہ، میرا دل اب ان باتوں میں نہیں ہے۔ اور میں ڈرتی بھی ہوں کہ بار بار یہی ہوتا ہے کہ چار دن کی خوشی کے بعد مدتوں رونا پڑتا ہے‘‘۔
پھر اس نے ہلکی سسکی بھری آواز میں شعر پڑھا
زخم تازہ کی طرح چرخ کہن اے جرأت
ٹک ہنساتا ہے تو پھر خوب رلاتا ہے مجھے
’’خانم صاحب کوئی ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہو۔ کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی رات بڑی‘‘۔
وزیر کے چہرے پر ایک تلخ اور محزوں سا تبسم آیا۔ ’’اسی لیے تو کہتے ہیں کہ روزے رکھے غریبوں نے تو دن بڑے ہوئے‘‘۔
’’اب آپ سے شعر و شاعری میں کون جیت سکے ہے، آخر شاہ نصیر صاحب آپ کے استاد تھے‘‘۔ حبیبہ نے ہنس کر کہا۔ ’’لیکن ایک بات میری مانیں تو عرض کروں‘‘۔
’’کیا؟‘‘
’’بائی جی سے پوچھ لیجئے، جو وہ کہیں وہی کیجئے‘‘۔
’’بائی جی صاحب…؟‘‘۔ وزیر نے ایک لمحہ رک کر جواب دیا۔ ’’بائی جی سے میں کیا پوچھوں گی اور کس طرح پوچھوں گی؟‘‘۔
’’وہ سب مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ کل نوچندی جمعرات ہے، دن بھی اچھا ہے۔ اور پھر بعد میں وہاں سے قدم شریف بھی ہو لیجئے گا‘‘۔
’’اچھا، کیا بعد فجر ٹھیک رہے گا؟‘‘۔
’’وہ تو سب سے اچھا وقت ہے کہ دن چڑھتے ہی وہاں بھیڑ لگ جاتی ہے۔‘‘
’’بائی جی صاحب کب بیدار ہو جاتی ہیں؟‘‘
’’اے میں نے تو سنا ہے وہ رات بھر سوتی ہی نہیں ہیں۔ شاید دوپہر کو ظہر کے پہلے جھپکی لگا لیتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے وہ سوتی ہی نہیں ہیں۔ آنکھیں تو ان کی بالکل لال انگارہ رہتی ہیں‘‘۔
اچھا کوڑیوں کا انتظام کر لینا۔ سنا ہے وہ کوڑیاں خوشی سے قبول کرتی ہیں‘‘۔
’’جتنی بھی سہی۔ دو روپے کی منگوا لینا‘‘۔
حبیب النسا تو امور خانہ داری میں لگ گئی، لیکن قدم شریف کے ذکر نے وزیر خانم کے دل میں ایک تیر سا چبھو دیا تھا۔ اب وہ نواب شہید کے مزار پر کم جاتی تھی، لیکن جاتی پھر بھی تھی اور پورے اہتمام کے ساتھ۔ اب جو اس کی زندگی میں ایک نئے مرد کے داخلے کا امکان ہو رہا تھا تو اس کو خیال آنے لگا کہ اگر مارسٹن بلیک یا آغا مرزا تراب علی، یا دونوں کی قبریں دلی میں ہوتیں تو کیا وہ ان کے مزاروں پر بھی اسی پابندی سے جاتی؟ اس نے اپنا دل بہت ٹٹولا۔ اس نئے خیال نے اس کی روح میں نیا تلاطم پیدا کر دیا تھا۔
مارسٹن بلیک کو وہ چاہتی ضرور تھی، لیکن وہ عزت اور احترام ان کے لیے اس کے دل میں نہ تھا جو نواب شمس الدین احمد کی شرافت اور نفاست طبع کا فطری تقاضا تھا۔ یہاں بھی اسے معلوم تھا کہ فریزر صاحب کے تعصبات کی بات اور تھی، پر دوسرے سارے انگریز لوگ نواب صاحب کے انتظام و انصرام ریاست کے قائل تھے۔ اسے یاد آیا کہ جس زمانے میں قتل فریزر کی تفتیش ہو رہی تھی، انگریزوں کے ہاتھ نواب شمس الدین احمد کے خلاف ایک اور ہتھیار لگ گیا تھا۔ ہوا یوں کہ نواب کے علاقے میں ایک بنیے کا قتل ہوگیا اور قاتل کا سراغ جلد نہ مل سکا۔ انگریزوں نے نواب پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ قاتل کو جلد از جلد ماخوذ کر کے ہمارے حوالے کیا جائے۔ نواب کہتے ہیں کہ قاتل ہمارا مجرم ہے، ہم اسے گرفتار کریں گے اور ہم ہی اسے سزا کو پہنچائیں گے۔ اس بات کو انگریزوں نے نواب کے انتظامیہ کی کمزوری، اور خوف نواب کی بھی نااہلی کا رنگ دے کر اس کی خوب تشہیر کی۔ لیکن آفریں ہے نواب شمس الدین احمد پر کہ وہ کسی دباؤ میں نہ آئے اور بالآخر انہوں نے بنیے کے قاتل کا سراغ لگوا کر اسے بیچ بازار میں پھانسی لگوا دی۔
مزاج کا یہ استقلال اور اپنی توقیر و تعظیم کا یہ لحاظ وزیر نے کسی اور میں نہ دیکھا، اور اس پر طرہ ہر چیز میں نواب صاحب کی خوش ذوقی، کہ شعر و شاعری سے لے کر لباس اور طرز معاشرت میں انہیں اپنے ہم چشموں میں تفوق حاصل تھا۔ اور رہے آغا مرزا تراب علی، تو وہ شریف، خاندانی، ملنسار اور بامروت انسان تھے۔ وزیر نے ان کی قدر دانیوں کا جواب اپنی طرف سے حقوق شوہری کے ادا کرنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا کر دیا تھا۔ اسے پوری امید تھی کہ آغا صاحب اس سے خوش تھے، اور اسے پورا یقین تھا کہ زمانے کا رنگ اور مزاج دیکھتے ہوئے وہ اس کے لیے بہت اچھے شوہر، اور اس کی زندگی کی ناؤ کے لیے قابل اعتبار و اعتماد ناخدا تھے۔
پھر، کیا ایسا بھی تھا کہ وہ ان تینوں کے ماتم میں تمام عمر روئے اور اپنے کلیجے کو خون حیات کے بجائے زہر فراق کی کسیلی کڑواہٹوں سے سیراب رکھے؟ وزیر کا دل ایک لمحے کو لرز اٹھا۔ نہیں یہ مجھ سے ممکن نہیں۔ نواب شمس الدین احمد کے لیے جوگن بن جاؤں، یہ کچھ مشکل نہیں۔ ان کے مزار کے فرش کو اپنے سر کی چھت بنا لوں، یہ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر کسی اور کے لیے اب میرے دل میں کتنی جگہ نکل سکتی ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔ اور یہ صاحب عالم مرزا فتح الملک بہادر، سبھی ان کی ثنا کرتے ہیں پر میں نے تو انہیں دیکھا بھی نہیں۔ سچ ہے عورت خود کو کتنی ہی بھاری بھرکم کیوں نہ سمجھے، مرد کے بغیر اس کا پلہ ہلکا ہی رہتا ہے۔ مجھے خدا جانے ابھی کتنے دن اور جینا ہے۔ نواب مرزا کی دلہن گھر میں آجائے تو بڑا سہارا ہو جائے۔ لیکن بیٹوں کا کیا ہے انہیں اپنے ہی گھر بار کے بنانے میں مزا آتا ہے۔ ماں کا گھر وہ کب تک تاکیں گے۔ شاہ محمد آغاز کی تو میں ہی ماں ہوں اور باپ بھی ہوں۔ بڑی باجی… (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post