پابندی کا دورزندگی کا بھیانک وقت تھا

0

محمد قیصر چوہان
محمد آصف کا شمار پاکستان کے ٹاپ کلاس بالرز میں ہوتا ہے۔ مختلف تنازعات کے سبب ان کے کیریئر کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم انہوں نے ایک مرتبہ پھر ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی صلاصتوں کا لوہا منوالیا ہے۔ محمد آصف کے کیریئر میں خاصے نشیب و فراز آئے ہیں۔ ڈوپ ٹیسٹ میں ناکامی، شعیب اختر سے جھگڑا، دبئی ایئر پورٹ پر ممنوعہ شے کی برآمدگی، اداکارہ وینا ملک کے ساتھ رقم کا تنازعہ اور سب سے اہم اسپاٹ فکسنگ کیس میں پانچ برس کی پابندی نے محمد آصف کے کیرئیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ نمائندہ امت نے محمد آصف سے ایک خصوصی ملاقات کی۔ ان سے ہونے والی گفتگو خود ان کی زبانی نذر قارئین ہے۔
’’یہ بات بالکل درست ہے کہ مختلف تنازعات کا شکار ہونے کی وجہ سے میرا ٹیلنٹ ضائع ہوا۔ میرا کیریئر طویل ہونا چاہیے تھا۔ مگر انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے۔ میں نے بھی غلطیاں کیں، جس کا خمیازہ بھگت چکا ہوں۔ میں سات برس سے زائد عرصے سے قومی ٹیم سے باہر ہوں۔ اگر میرا یہ قیمتی وقت ضائع نہ ہوتا اور میں تسلسل کے ساتھ پاکستان کیلئے کھیلتا رہتا تو شاید میرا شمار آج پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بالر کے طور پر ہوتا۔ میں اب اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھ چکا ہوں اور میری کوشش ہو گی کہ دوبارہ ان غلطیوں کو کبھی نہیں دہرائوں۔ بلاشبہ مجھ پر پابندی کا دور میرے کیریئر کا بھیانک وقت تھا۔ پاکستانی ٹیم بھی اس تنازعے کی وجہ سے کافی متاثر ہوئی۔ یہ واقعہ پیش نہیں آنا چاہیے تھا۔ میں اپنی اس غلطی پر پوری قوم سے معافی مانگ چکا ہوں۔ اور عہد کرتا ہوں کہ مستقبل میں اب ایسی کوئی غلطی نہیں کروں گا، جس سے میرا کیریئر خراب ہو یا ملک و قوم کے نام پر کوئی حرف آئے۔ سوچا تک نہیں تھا کہ مجھے زندگی میں کبھی جیل بھی جانا پڑے گا۔ عدالت کے فیصلے سے ایک دن قبل میرے وکیل نے مجھ پر واضح کر دیا تھا کہ کوئی بُرا فیصلہ آنے والا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس معاملے پر فوری طور پر کچھ نہیں کیا، جس سے صورت حال خراب ہوئی۔ اگر پی سی بی ہی فوری طور پر ہمیں معطل کر دیتا، جیسے کہ ماضی میں بھارت نے اپنے پلیئرز کو معطل کیا تھا۔ اس نے اپنے کھلاڑیوں کو آئی سی سی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا اور انہوں نے خود ہی معاملہ نمٹایا۔ اگر پی سی بی بھی فوری کارروائی کرتا تو صورت حال اتنی نہ بگڑتی۔ بہرحال کڑا وقت گزر گیا۔ اب میں آزاد ہو چکا ہوں۔ آئی سی سی کے کوڈ آف کنڈکٹ پر بھی مکمل عمل کیا ہے۔ جبکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں تسلسل کے ساتھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کر رہا ہوں۔ مسلسل عمدہ پرفارم کرنے کے باوجود قومی سلیکشن کمیٹی کی جانب سے نظر انداز کئے جانے پر دل برداشتہ نہیں ہوں۔ بلکہ قومی ٹیم میں واپسی کیلئے سخت محنت کر رہا ہوں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور قومی سلیکشن کمیٹی ڈومیسٹک کرکٹ میں میری شاندار کارکردگی کا صلہ قومی ٹیم میں واپسی کی صورت میں ضرور دے گی۔ ورلڈکپ 2019ء میں پاکستان کی نمائندگی کا خواہش مند ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ جب تک محمد عامر ٹیم میں شامل ہیں، مجھے موقع نہیں دیا جائے گا۔ میں کسی قسم کی تنقید کرنا نہیں چاہتا۔ سلیکٹرز کو اب مجھے بھی موقع دینا چاہئے۔ مجھے پوری طرح احساس ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کیلئے مجھے ڈومیسٹک کرکٹ میں تسلسل کے ساتھ شاندار کارکردگی دکھانا ہے۔ لہذا وہ میں مسلسل دو سیزن سے کر رہا ہوں۔ یہ تو اب سلیکٹرز پر منحصر ہے کہ وہ کب مجھے دوبارہ چانس دیتے ہیں۔ البتہ میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں اپنی واپسی کا بڑی شدت سے انتظار کر رہا ہوں‘‘۔
’’امت‘‘ کے ایک سوال کے جواب میں محمد آصف نے اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے بتایا کہ… ’’میرا تعلق شیخو پورہ کے نزدیکی گائوں ماچھیکے سے ہے۔ میری پیدائش20 دسمبر 1982ء کو اسی گائوں میں ہوئی۔ میرے والد کا نام حسن دین، جبکہ والدہ کا نام آمنہ بی بی ہے۔ میرے والد حسن دین زمینداری کرتے ہیں۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ تین بڑی بہنیں ہیں، جبکہ مجھ سے بڑا بھائی محمد اشرف ہے۔ ہم سب بہن بھائی شادی شدہ ہیں۔ میں بچپن میں گائوں کے دیگر ہم عمر بچوں کے ساتھ مل کر وقت گزارنے کیلئے فٹ بال کھیلا کرتا تھا۔ کرکٹ صرف ٹی وی پر دیکھنے کا شوق تھا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ مجھے کرکٹ سے محبت ہو گئی۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کے سبب ملنے والے لاڈ پیار کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے گھر والوں کی شدید مخالفت کے باوجود اپنے گائوں کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں اور ناہموار میدان میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ یہ 1996ء کی بات ہے جب میں نے اپنے شوق کو جلا بخشنے کیلئے نزدیکی شہر شیخو پورہ کا رُخ کیا۔ جہاں میں نے شیخو پورہ جمخانہ کرکٹ کلب جوائن کیا۔ امید تھی کہ یہاں بھی گائوں کی طرح زیادہ دیر تک بیٹنگ کر سکوں گا۔ مگر دو ہفتوں تک میری باری ہی نہیں آئی تو میں نے بالنگ کرانی شروع کر دی۔ نیٹ کے دوران کوئی کوچ نہ تھا۔ تاہم کلب کے سیکریٹری معین پرویز چشتی نے کافی حوصلہ افزائی کی۔ جس سے بیٹسمین بننے کا خیال دل سے نکال کر بالنگ میں نام کمانے کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ 1988ء میں جب میں نے لاہور ڈویژن کی طرف سے پہلی مرتبہ انڈر 19 کرکٹ ٹورنامنٹ میں 15 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا اور پھر 1999ء میں انڈر 19 کرکٹ ٹورنارمنٹ میں 20 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تو لوگوں نے بڑی تعریفیں کیں اور ہمت بڑھائی۔ پھر شیخو پورہ کی جانب سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں حصہ لیا اور 2000-2001ء کے سیزن میں قائد اعظم ٹرافی کے اپنے ڈیبیو میچ میں پشاور کے خلاف عمدہ پرفارم کیا۔ میں شیخو پورہ کی جانب سے زیادہ فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیل سکا۔ جس کی اصل وجہ یہی تھی کہ اس وقت عاقب جاوید، رانا نوید الحسن، جعفر نذیر اور کاشف رضا موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں حتمی ٹیم میں جگہ بنانا آسان کام نہیں تھا۔ اسی دوران خوش قسمتی سے مجھے KRL کی ٹیم میں منسلک ہونے کا موقع مل گیا اور فرسٹ کلاس کرکٹ تسلسل کے ساتھ کھیلنا میرے لیے کوئی مسئلہ نہ رہا۔ کیونکہ کے آر ایل میں جاتے ہی مجھے میچز ملنے شروع ہو گئے تھے۔ میں نے وہاں شعیب اختر کے ساتھ مل کر KRL کو کامیابیاں دلوائیں۔ اسی طرح ڈومیسٹک کرکٹ میں تسلسل کے ساتھ عمدہ پرفارمنس بالآخر مجھے پاکستانی ٹیم تک لے آئی‘‘۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More