مرزا عبدالقدوس
حج 2018ء کے موقع پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی سابق حکومت نے فی حاجی 45 ہزار روپے کی سبسڈی دی تھی اور حکومت کو چار ارب روپے ادا کرنا پڑے تھے۔ تاہم آئندہ سال حج کے موقع پر پی ٹی آئی کی حکومت کا اس طرح کی سبسڈی دینے یا کوئی بھی مالی رعایت دینے کا ارادہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک اجلاس میں واضح فیصلہ کر دیا ہے۔ چونکہ حج، صاحبِ اسطاعت مسلمانوں پر فرض ہے اور سبسڈی کے ذریعے کئے گئے حج پر شرعی حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، اس لئے حکومت نے حج میں کوئی بھی مالی رعایت نہ دینے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ سال فی حاجی نے حج پر جانے کیلئے دو لاکھ 80 ہزار روپے ادا کئے تھے۔ وزارت حج کے ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں مختلف ٹیکسز کے نفاذ اور ریال کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ حکومت کو فی حاجی پنتالیس ہزار روپے سبسڈی ادا کرنی پڑی اور اس سلسلے میں نواز لیگ کی حکومت نے چار ارب روپے کی خطیر رقم ادا کی تھی۔ ان ذرائع کے مطابق گزشتہ حج کے موقع پر ڈالر کی جو قیمت تھی، اس میں بھی اب خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔ پچھلی حکومت کو الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے مجبوراً سبسڈی دینا پڑی تھی، جو موجودہ حکومت نہیں دے گی۔ جبکہ سبسڈی یعنی مالی معاونت یا رعایت سے کئے گئے حج پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس لئے امکان ہے کہ گزشتہ سال سرکاری انتظام کے تحت جو حج دو لاکھ اسی ہزار روپے میں عام آدمی کو پڑا تھا، اس مرتبہ ہر عازم حج کو لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ روپے تک ادا کرنا پڑیں گے۔ اس طرح حج اخراجات میں گزشتہ مرتبہ کی نسبت ساٹھ سے ستّر ہزار روپے اضافے کا امکان ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے حج و عمرہ امور سے وابستہ اسلام آباد کی معروف شخصیت حاجی محمد اقبال کنگڈم نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ… ’’پاکستان کی کرنسی مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ جب اگلے سال وزارت مذہبی امور نئی حج پالیسی کا اعلان کرے گی یا نجی شعبہ اپنے پیکیجز دے گا، تو ہمیں نہیں معلوم کہ اس وقت کرنسی کی کیا صورت حال ہوگی؟ اس لئے حج پیکیجز میں کتنا اضافہ ہوگا، یا حج کتنے میں ہوگا؟ اس وقت اس بارے میں کچھ کہنا خاصا قبل از وقت ہے‘‘۔ ایک سوال پر حاجی محمد اقبال کنگڈم کا کہنا تھا کہ ’’یہ درست ہے کہ گزشتہ حج کے موقع پر سعودی حکومت نے مختلف ٹیکسز اچانک عائد کر دیئے تھے۔ اس وقت تک سرکاری اخراجات کا بھی اعلان ہوچکا تھا اور نجی شعبے نے بھی پیکجز متعارف کرادیئے تھے اور تب تک اضافہ ممکن نہ تھا۔ لہذا حکومت پاکستان کو اربوں روپے سبسڈی دینا پڑی تھی۔ جبکہ حکومت کو پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کو بھی اضافی رقم ادا کرنا پڑی تھی۔ لہذا اس سال اس تمام صورت حال کو سامنے رکھ کر حج اخراجات کیلئے پیکیجز کا اعلان ہوگا اور میرا خیال ہے کہ سعودی ریال اور روپے کے درمیان موجودہ تناسب برقرار بھی رہا تو بھی حج اخراجات میں پندرہ فیصد اضافہ ہو سکتا ہے‘‘۔
اس سلسلے میں وزرات مذہبی امور کے ترجمان عمران صدیقی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ… ’’حج 2018ء کے موقع پر اخراجات میں جو اچانک اضافہ ہوا، اس کی وجہ سے فی حاجی پنتالیس ہزار روپے حج اخراجات بڑھ گئے تھے اور حج پیکیج کے مطابق فی حاجی دو لاکھ اسی ہزار روپے کے بجائے تین لاکھ پچیس ہزار روپے ادا کرنا پڑے تھے۔ اس میں 45 ہزار روپے حکومت نے اپنی طرف سے ادا کئے تھے۔ اب ان پینتالیس ہزار روپے کا اضافہ تو یقینی ہے، جبکہ ڈالر اور ریال کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بھی مزید اخراجات میں اضافہ ممکن ہے‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مزید کہا کہ ’’سابق حکومت نے غیر معمولی حالات، یعنی الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے حج اخراجات پر سبسڈی دی اور سعودی عرب میں ٹیکسز کے نفاذ کے بعد کا اضافہ حجاج کرام سے نہیں لیا۔ شرعی نقطہ نظر سے بھی حج پر سبسڈی جائز نہیں ہے۔ اس لئے اس سال ہر دو صورتوں یعنی ٹیکسز کے نفاذ اور روپے کی قدر میں خاطر خواہ کمی کی وجہ سے حج اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ممکن ہے۔ اس اضافے میں موجودہ حکومت یا وزارت مذہبی امور کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا اثر بھی حج اخراجات پر پڑے گا اور ان میں اضافہ ہوگا‘‘۔
٭٭٭٭٭