نمائندہ امت
افغان پارلیمان کی مدت میں دو مرتبہ توسیع کے بعد آج (20 اکتوبر کو) 250 نشستوں کیلئے انتخابات ہو رہے ہیں۔ تاہم قندھار میں گورنر، صوبائی پولیس چیف اور انٹیلی جنس چیف کی ہلاکت کے باعث الیکشن ایک ہفتے کیلئے ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قندھار حملے کے بعد جنرل عبدالرازق کے حمایت یافتہ امیدواروں کیلئے الیکشن جیتنا نا ممکن ہوگیا ہے۔ جبکہ حزب اسلامی اور شمالی اتحاد کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ انتخابات کیلئے امریکہ نے بھی اپنی فوج کو الرٹ کر دیا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے الیکشن کے روز عوام سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ انتخابات کے حوالے سے آخری اپیل ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں تقریباً چھ سال قبل انتخابات ہوئے تھے، جس میں شمالی اتحاد اور آزاد اراکین پر مشتمل گروپوں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم اشرف غنی حکومت میں شمولیت کے بعد شمالی اتحاد اور آزاد گروپ حکومت کو مسلسل بلیک میل کرتے رہے۔ صدارتی الیکشن کے بعد جب موجودہ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کیا تو پارلیمان کے اراکین نے ڈاکٹر عبداللہ کا ساتھ دیا اور صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو اتنا مجبور کر دیا کہ وہ ڈاکٹر عبداللہ کیلئے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ تخلیق کرنے پر مجبور ہو گئے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس معاملے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجے میں افغان پارلیمان نے آئین سے بالا ایک عہدے کی منظوری دی۔ بعد ازاں وزارتوں کے حصول میں بھی شمالی اتحاد بازی لے جاتا رہا۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کئی مرتبہ صدر اشرف غنی کے نامزد کردہ وزرا کی فہرست کو نظرانداز کرکے اپنے ساتھیوں کو وزارتوں سے نوازا اور کئی وزرا کو عہدوں سے ہٹانے میں بھی ڈاکٹر عبداللہ اور ان کے ساتھی پارلیمان کے ذریعے کامیاب رہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی اتحاد کے اہم رہنما صلاح الدین ربانی دو مرتبہ وزیر خارجہ بنائے گئے۔ حالانکہ صدر اشرف غنی ان کو عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ تاہم آخری بار صدر اشرف غنی کے ڈٹ جانے کی وجہ سے گزشتہ چھ ماہ سے وزیر دفاع سمیت کئی وزرا قائمقام کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کو پارلیمان کی جانب سے توثیق نہیں ملی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ افغان صدر نے افغانستان میں طالبان کے اثر و رسوخ کے باوجود 20 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔ تاہم طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں الیکشن کا انعقاد حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ الیکشن کیلئے افغان حکومت نے چار ماہ تک ووٹر رجسٹریشن مہم چلائی۔ تاہم اس دوران داعش کی جانب سے کئی رجسٹریشن کیمپوں پر حملوں کے بعد رجسٹریشن میں کمی واقع ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے بائیو میٹرک ووٹنگ کا اندراج کیا اور ووٹرز کو ان کے ووٹر کارڈ جاری کئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اس مرتبہ پختونوں کی بڑی سیاسی جماعت حزب اسلامی بھی الیکشن میں حصہ لے رہی ہے، جس سے سابق صدر حامد کرزئی، موجودہ صدر اشرف غنی اور سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ ذرائع کے بقول اگر حزب اسلامی الیکشن میں واضح کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو موجودہ افغان صدر اور نئے آنے والے صدر کو اہم فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی پختون علاقوں میں پرامن انداز سے الیکشن کرانے کیلئے کوشاں ہیں۔ تاہم شمالی اتحاد کی کوشش ہے کہ پختون علاقوں میں طالبان انتخابات کو سبوتاژ کردیں، تاکہ وہ اپنے علاقوں سے الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ تاہم اس کے باوجود بڑے پیمانے پر حزب اسلامی کی کامیابی کی توقع کی جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق شمالی اتحاد نے مختلف علاقوں میں جنگجو کمانڈروں سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابات کی تیاری مکمل ہے۔ تاہم جنوبی صوبہ قندھار میں گزشتہ روز طالبان کے حملے میں گورنر زلمے ویسا، پولیس چیف جنرل عبدلرازق اور صوبائی انٹیلی جنس چیف جنرل مومن کی ہلاکت کے بعد الیکشن ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ قندھار میں جنرل مومن اور جنرل عبدالرازق نے بڑے پیمانے پر اپنے حامیوں کو کامیاب کرانے کی تیاری مکمل کرلی تھی۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کو امیدوار نامزد کیا تھا۔ جبکہ جنرل عبدالرازق نے حزب اسلامی کے اہم امیدواروں کے رشتہ داروں کو اغوا بھی کیا تھا، جس میں حکمت یار کے قندھار کیلئے مشیر بھی شامل ہیں، جنہیں بعد میں افغان صدر کی مداخلت پر رہا کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل عبدالرازق قندھار سے اپنے حامیوں کو اس لئے منتخب کرانا چاہتے تھے کہ اگر طالبان اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ ہو بھی جاتا ہے تو وہ پارلیمان کے ذریعے اپنے لئے حکومت میں کوئی عہدہ نکال لیں گے۔ لیکن اب یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ کیونکہ ان کے حامی اب مایوس ہو گئے ہیں اور ان میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قندھار، پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا قریبی صوبہ ہے، اس لئے یہاں سے جنرل عبدالرازق کے حامیوں کی کامیابی کے اثرات پورے علاقے پر پڑتے۔ لیکن اب یہاں شمالی اتحاد اور جنرل عبدالرازق کے درمیان ہونے والا اتحاد ٹوٹ گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قندھار میں ایک ہفتے بعد ہونے والے الیکشن میں حزب اسلامی اور دیگر سابق جہادیوں کی کامیابی کے امکانات ہیں۔
٭٭٭٭٭