امت رپورٹ
کراچی میں 5 برس سے منشیات فروش گروہ کی ’’سی کمپنی‘‘ سرگرم ہے۔ 6 انتہائی مطلوب ترین منشیات فروش گروپوں میں سے ایک ’’درویش‘‘ نے 2013ء میں رینجرز اور پولیس آپریشن شروع ہونے کے بعد دبئی میں اپنے خاص کارندوں کے ساتھ بیٹھ کر منشیات فروشی کا دھندا منظم انداز میں کرنے کیلئے سی کمپنی قائم کی۔ درویش نے دبئی میں انڈر ورلڈ سے متاثر ہوکر اس نام سے کمپنی بنائی۔ اس سے قبل درویش پی آئی بی کالونی تھانے کی حدود میں پرانی سبزی منڈی کے قریب منشیات کا صرف ایک اڈہ ہی چلا رہا تھا، جو 2002ء سے قائم ہے۔ تاہم 2013ء میں اس نے اے این پی کے مقابلے میں کالعدم امن کمیٹی کے عبدالرحمان ڈکیت گروپ کے سربراہ عذیر بلوچ کے کہنے پر عزیز بھٹی تھانے کی حدود میں گلشن اقبال شانتی نگر میں منشیات کا اڈہ چلانے والے کالو کرنٹ کے ساتھ مل کر کام شروع کیا۔ اس دوران درویش کے کارندوں نے کالعدم امن کمیٹی کے کارندوں کے ساتھ مل کر قتل کی کئی وارداتیں کیں۔ کالعدم امن کمیٹی سے ہاتھ ملانے کا مقصد درویش کے منشیات کے کاروبار اور اڈے کو مضبوط کرنا تھا۔ تاہم رینجرز اور پولیس کی جانب سے 25 ستمبر 2013 میں جب کراچی آپریشن شروع کیا گیا تو درویش اپنے دو خاص کارندوں کے ہمراہ دبئی فرار ہوگیا تھا۔
پولیس ذرائع کے مطابق منشیات فروش درویش کی ’’سی کمپنی‘‘ کے کارندے کراچی کے دو دیگر انتہائی مطلوب منشیات فروشوں فاروق روہڑا اور رحمن ڈکیت کے سالے ساجد کے کارندوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، جن کی منشیات بدنام زمانہ ڈیلر باجوڑی سپلائی کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میںگرفتار ہونے والے ملزم لیاقت عرف شوٹر سے تحقیقات میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ملزم منشیات فروش درویش کا قریبی ساتھی ہے، جس نے بتایا ہے کہ درویش کی منشیات فروش ’’سی کمپنی‘‘ کے کارندے کراچی سے شمالی علاقہ جات تک پھیلے ہوئے نیٹ ورک میں شامل ہیں، جس کے تحت 9 اقسام کی منشیات کراچی کے مختلف علاقوں میں سپلائی کی جاتی ہے۔ جس میں چرس، گردا، ہیروئن، آئس، کرسٹال، میتھ، شراب، افیون، کوکین شامل ہیں۔ اس وقت کمپنی کے تحت شہر بھر میں 12 سے زائد ٹولیاں یا سب گروپ سرگرم ہیں جن میں سے ہر ٹولی میں 6 سے 7 لڑکے شامل ہیں۔ ہر ٹولی براہ راست درویش کے خاص کارندوں سے رابطے میں ہے، جس کی وجہ سے ایک گروپ کے لڑکے دوسرے گروپ کے لڑکوں کو نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک ٹولی کا کوئی کارندہ پولیس کے ہتھے چڑھ بھی جائے تو صرف 6 سے 7 لڑکوں کی انفارمیشن ہی پولیس کو مل پاتی ہے۔ دیگر درجن گروپوں کے تمام کارندے محفوظ رہتے ہیں اور یوں یہ نیٹ ورک کامیابی سے چلایا جا رہا ہے۔
پولیس ذرائع کے بقول گرفتار ملزم کے انکشافات کے مطابق درویش کی سی کمپنی کیلئے منشیات فروشی کرنے پر ہر دو روز میں پانچ سے دس ہزار روپے ملتے تھے، بدنام زمانہ منشیات فروش درویش کی سی کمپنی خیبر پختون سے منشیات لاتی ہے۔گرفتار ملزم شوٹر لیاقت نے یہ بھی بتایا کہ منشیات کے اڈوں کو تقسیم اور فروخت کے معاملات درویش کے قریبی عزیز کرتے تھے، جبکہ گروپ کے کارندوں کی جانب سے کی جانے والی ڈکیتی کی واردات میں ملنے والا سارا مال درویش تک جاتا تھا۔ ملزم کے مطابق ہر ٹولی کے ایک اڈے سے30 سے 40 لاکھ روپے کا کاروبار ہوتا تھا۔ درویش نے پی آئی بی تھانے کی حدود میں پرانی سبزی منڈی کے قریب ایک بڑے اڈے کے علاوہ اسی علاقے میں واقع کرنال بستی میں بھی ایک خفیہ ٹھکانہ 2013 کے بعد سے بنا رکھا ہے، جس میں منشیات ڈیلر باجوڑی کی جانب سے بھجوائے گئی منشیات کی ڈلیوری کے علاوہ اسلحہ بھی ڈمپ کیا جاتا تھا۔ اس ٹھکانے کا تمام سسٹم ایک خاص کارندہ نعیم چلارہا تھا۔ جبکہ نظام عرف درندہ نامی کارندہ درویش کے نائب کے طور پر پی آئی بی میں منشیات کے ہیڈ آفس کو سنبھالے ہوئے تھا۔
درویش کے ساتھ کام کرنے والے چنیسر گوٹھ اور ہزارہ کالونی کالا پل کے بدنام زمانہ منشیات فروش فاروق عرف روہڑا کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد منشیات کی کھیپ باجوڑی سے رحمن ڈکیت کے قریبی عزیز ساجد کے توسط سے منگواتا ہے، جس کا اولڈ گولیمار اور پاک کالونی میں منشیات کے کاروبار کا بڑا سیٹ اپ ہے۔ منشیات کی یہ ڈلیوریاں فاروق کنگلا اور منشا شدیدی کے ذریعے منگوائی جاتی تھیں۔ واضح رہے کہ فاروق روہڑا ان ملزمان کی فہرست میں بھی شامل ہے، جن پانچ انتہائی مطلوب ملزمان کے سروں کی قیمت فی کس 10 لاکھ روپے مقرر کرنے کیلئے پولیس چیف امیر شیخ کی جانب سے وزات داخلہ سندھ کو رواں ماہ خط ارسال کیا گیا۔ ان پانچ انتہائی مطلوب ملزمان میں احمد علی مگسی، فاروق روہڑا، سید بادشاہ، تاج محمد خان اور فرمان عرف ملنگی شامل ہیں۔
ذرائع کے بقول ماضی میں اڈوں پر روایتی انداز میں منشیات فروشی کرنے کے بجائے اس وقت درویش گروپ کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ساجد اور فاروق منظم انداز میں کام کر رہے ہیں، جس میں ان کے کارندوں کی درجنوں ٹولیاں پاک کالونی، محمود آباد، گلستان جوہر، گلشن اقبال، قیوم آباد، ہجرت کالونی، سلطان آباد، نیلم کالونی، ٹاپو گلشن سکندر آباد، گولیمار، ناظم آباد، لیاقت آباد، دہلی کالونی، گزری، قائد آباد سمیت دیگر علاقوں میں موجود ہیں، جہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے رابطے کرکے آئس، کرسٹال، میتھ اور چرس گانجا سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار پوش علاقوں کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کیلئے اطراف کی کچی آبادیوں سے چلایا جاتا ہے۔ جبکہ اڈوں سے مختلف علاقوں کی گلیوں میں ہیروئن وغیرہ سپلائی کی جاتی ہے۔ اس کیلئے زیادہ تر ایسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو نیٹ ورک میں شامل کیا گیا ہے، جو نشے کے عادی ہوچکے ہیں۔ تاہم نشے کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں اور یہ دیگر نوجوانوں کو منشیات سپلائی کرکے اپنے نشے کیلئے اخراجات پورے کررہے ہیں۔ صورتحال اس قد ر سنگین ہوچکی ہے کہ پوش علاقوں کے کالجز اور اسکولوں کے طلبہ و طالبات کے علاوہ دفاتر میں کام کرنے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی تیزی سے آئس اور کرسٹال نامی نشے کی لت میں مبتلا ہورہے ہیں اور صورتحال کی سنگینی کا کراچی پولیس کو مکمل ادراک ہوچکا ہے۔کیونکہ گزشتہ برسوں میں پولیس کے ہی کرپٹ تھانیداروں اور ماتحت عملے کی ملی بھگت سے پنپنے والے گروپ اب معاشرے کیلئے مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔ رواں ماہ میں کراچی پولیس چیف امیر شیخ کی جانب سے شہر میں منشیات کے 30 بڑے اڈوں کی فہرست جاری کی گئی۔ محمودآباد چنیسر گوٹھ میں فاروق کے اڈے کے علاوہ شیریں جناح کالونی، سول لائنز میں ہجرت کالونی، کلاکوٹ لیاری میں بہار کالونی، ابراہیم حیدری کی ریڑھی گوٹھ، ناظم آباد میں سیف اللہ کا اڈہ، شاہراہ نور جہاں میں کوئلہ کڑاہی ڈی سلوا ٹائون، جمشید کوارٹر میں لسبیلہ چوک، لانڈھی میں مسلم آباد، ملیر سٹی منا بروہی اور قائدآباد ، موسمیات کے قریب بلاول گوٹھ، پاک کالونی، منگھو پیر کے علاقے پختون آباد، عزیز بھٹی کے علاقے شانتی نگر اور ڈالمیا میں کالو کرنٹ کے منشیات کے اڈوں کے علاوہ پی آئی بی کالونی میں عیسیٰ نگری اور سبزی منڈی کے قریب مینا کے منشیات کے اڈے، کورنگی میں زمان ٹائون میں منشیات فروشی، فریئر اور ڈیفنس تھانوں کی حدود کالاپل کے قریب ریلوے کالونی ، بلوچ کالونی کے علاقے میں جونیجو ٹائون اور اعظم بستی جبکہ ملیرکینٹ میں زکریا گوٹھ، گلشن معمار، سائٹ سپر ہائی وے کے علاقے دوست محمد جنجال گوٹھ، ڈاکس کی حدود مچھرکالونی، پیر آباد کے علاقے قصبہ کالونی ،مدینہ کالونی کے علاقے اتحاد ٹائون، شرافی گوٹھ کے علاقے خلدآباد، ملیر کے علاقے سعود آباد، مومن آباد، الآصف اسکوائر اور سہراب گوٹھ کے علاقے لاسی گوٹھ کے اڈے شامل ہیں۔ اسی خط میں ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا کہ جرائم پیشہ ملزمان اور منشیات فروشوں کے درمیان گہرا گٹھ جوڑ ہے اور ہر جرم کے پیچھے منشیات کا استعمال پایا گیا۔ جبکہ کراچی کے کالجز، یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات بھی منشیات استعمال کر رہے ہیں اور ان اڈوں کی وجہ سے منشیات خاص طور پر نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post