ایرانی کسٹم افسران کے حسن سلوک نے دل موہ لیا

0

اسنیک ایران میں اپنی آخری رات ذرا شان اور آرام سے گزارنے کیلئے ٹیکسی ڈرائیور صاحب سے عرض کی کہ مجھے ابوذر ہوٹل پہنچا دیں۔ وہاں معلوم ہوا کہ ایک سنگل کمرے کا ایک رات کا کرایہ ایک لاکھ بیس ہزار ریال ہے۔ رات کے باقی ماندہ چند گھنٹے گزارنے کی اتنی بڑی قیمت میری سمجھ میں نہیں آئی۔ اس لیے وہاں سے سیدھا اسلامی مسافر خانہ گیا اور وہاں ایک ڈبل کشادہ کمرہ صرف بیس ہزار ریال میں حاصل کیا اور چین سے رات گزاری۔ صبح نماز اور ناشتے سے فارغ ہوکر ایک ٹیکسی کے ذریعے زاہدان کے بازار پہنچا اور وہاں اہلیہ صاحبہ کی فرمائش پر کرسٹل گلاس کی اشیا تلاش کیں، جو کہیں نہ ملیں۔ ناچار واپس آیا اور پھر مسافر خانے کو پینٹ کرنے والے ایک اردو بولنے والے پینٹر کے مشورے پر مسافر خانے کا کمرہ خالی کر کے ایک مرتبہ پھر ابوذر ہوٹل مع سامان پہنچا کہ وہاں سے میرجاوا (ایران۔ پاکستان سرحد پر حکومت ایران کی چیک پوسٹ) جانے کے لیے ڈبل کیبن پک اپس ملتی تھیں۔ جلد ہی مجھے ایک چہار سیٹر ڈبل کیبن پک اپ میں پندرہ ہزار ریال کے عوض ایک سیٹ مل گئی۔ بفضل تعالیٰ ساڑھے گیارہ بجے زاہدان کو خدا حافظ کہا اور تقریباً ساڑھے بارہ بجے میرجاوا پہنچ گیا۔
تھوڑی دیر یہاں انتظار کرنا پڑا کہ امیگریشن آفس میں نماز اور کھانے کا وقفہ تھا۔ جلد ہی دفتری کارروائی شروع ہوگئی۔ میں نے دیکھا کہ ایرانی امیگریشن اور کسٹم حکام کا رویہ تمام ہی پاکستانیوں کے ساتھ نہایت ہمدردانہ مہذبانہ تھا۔ انہوں نے پاکستانیوں کے سامان کو برائے نام ہی چیک کیا مگر جب میرا نمبر آیا اور میں نے اپنا پہلا بھاری بیگ کائونٹر پر رکھا تو میں اپنے سامان کے انجام سے خاصا خوفزدہ تھا۔ مگر میں نے دیکھا کہ میرے سامنے وہی کسٹم افسر کھڑا تھا جس سے میری ملاقات انیس فروری 2002ء کو اس وقت ہوئی تھی جب میں پہلی دفعہ ایران میں وارد ہوا تھا۔ وہ مجھے فوراً پہچان گیا اور مسکرا کر کہا کہ تمہیں یاد نہیں میں نے تم سے اس وقت کیا کہا تھا، جب تم پہلے یہاں آئے تھے؟ میں نے کہا کہ مجھے یاد ہے۔ اس مرد نیک نے اپنے انگلش میں اس وقت کہے گئے الفاظ ایک دفعہ پھر دہرائے اور بولا:
"No cehcking for you as you are so good”
’’تمہارے لیے کوئی چیکنگ نہیں ہے کہ تم اتنے اچھے ہو۔‘‘
یہ سن کر میری حالت بڑی عجیب و غریب تھی۔ کہاں میں اپنے سامان بالخصوص معدنیاتی نمونوں کے انجام سے لرزاں و ترساں اور کہاں اس غفورالرحیم اور قادر مطلق کی طرف سے رحمت کی یہ بارش۔ بمشکل میں اپنی پوری طاقت مجتمع کر کے صرف ’تشکر‘ کا لفظ زبان سے ادا کر سکا اور اپنا سامان سمیٹ کر آگے بڑھ گیا اور پھر سرحدی لائن عبور کر کے اپنے پاکستانی شہر تافتان کی سرزمین میں داخل ہو گیا۔
بفضل تعالیٰ تافتان کی امیگریشن اور کسٹم چیک پوسٹ کے حکام اور عملے کے افراد بھی ازراہ عنایت میرے ساتھ عزت سے پیش آئے اور پاسپورٹ کی چیکنگ کرنے اور مجھے جلد فارغ کرنے میں میرے ساتھ ترجیحی سلوک کیا۔ امیگریشن اسٹاف کو میرا نوکنڈی اسٹیل مل پروجیکٹ یاد تھا اور اس سلسلے میں کی گئی پیش رفت کے بارے میں ان صاحبان نے مجھ سے کئی سوالات کئے اور میرے جوابات سن کر خوشی و اطمینان کا اظہار کیا۔ پہلے میں نے کوشش کی کہ کوئٹہ جانے کے لیے ایک پوری ڈبل کیبن پاک اپ ہائر کر لوں اور اس میں ہمائے (جہاں سے میری اسکیم کے مطابق نوکنڈی اسٹیل مل کے لیے چونے کا پتھر آنا تھا) اور نوکنڈی سے گزرتا ہوا کوئٹہ پہنچوں۔ مگر پک اپ کے ڈرائیور کے ساتھ کرائے پر اتفاق نہ ہو سکا۔ مجبوراً میں نے بلال ٹرانسپورٹ کمپنی کی عام بس کا کوئٹہ کا ٹکٹ صرف دو سو روپے میں خرید لیا۔ یہاں بھی بفضل تعالیٰ بس کے مالک نے جو ساتھ ہی سفر کررہے تھے میرے ساتھ ترجیحی سلوک کیا اور مجھے بس کے پچھلے حصے کی بجائے سیٹ نمبر 1 یعنی ڈرائیور کی سیٹ کے پیچھے والی سیٹ الاٹ کر دی۔ میری بس نے تافتان کو ساڑھے چار بجے شام خدا حافظ کہا اور تقریباً گیارہ بجے رات بسوں کے مڈوے اسٹیشن ’پدگ‘ پر نماز اور کھانے کا ہالٹ کیا۔ یہاں میں نے نماز عشا ادا کی اور پدگ کے ڈرائیور ہوٹل میں رات کا بہت اچھا اور تازہ کھانا صرف تیس روپے میں سپرد معدہ کیا۔ ہم نے پدگ کو تقریباً بارہ بجے رات خدا حافظ کہا اور کوئٹہ صبح ساڑھے چار بجے وارد ہو گئے۔ میں ایک موٹر رکشہ کے ذریعے کہ جس کا ڈرائیور ایک تعلیم یافتہ اور مہذب بلوچی نوجوان تھا، آرٹ اسکول روڈ پر واقع الخیر ہوٹل پہنچ گیا کہ اس زمانے میں کوئٹہ میں اسی ہوٹل میں ٹھہرا کرتا تھا۔ کہ یہ ایک نیا تعمیر شدہ اور صاف ستھرا ہوٹل تھا اور جس کا عملہ بھی مہذب افراد پر مشتمل تھا۔ خاص طور سے اس کے منیجر صاحب مجھ پر بہت مہربان تھے اور میرے آرام کا خاص خیال رکھتے تھے نیز کمرے کے کرائے میں بھی مجھے خاصی چھوٹ دیتے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More