ضیاء چترالی
برطانیہ میں خود کشی کے رجحان میں اضافے کے بعد حکومت نے اس انتہائی اقدام کی روک تھام کیلئے ایک وزارت قائم کر دی ہے۔ وزیر اعظم تھریسا مے نے گزشتہ دنوں ’’انسداد خود کشی‘‘ کی وزارت کیلئے ایک ماہر نفسیات خاتون کو وزیر مقرر کر دیا، جو دنیا کی پہلی وزیر برائے انسداد خود کشی ہیں۔ العربیہ کے مطابق برطانیہ بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جہاں ہر عمر کے افراد میں خود کشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اپنی زندگی کا چراغ خود گُل کرنے والوں میں زیادہ تعداد طلبہ کی ہے۔ برطانوی طلبہ فیس بک کی آئی ڈی بند ہونے جیسے معمولی واقعات پر بھی طیش میں آکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے لگے ہیں۔ جبکہ انتہائی سنجیدہ اور سلجھے ہوئے افراد میں بھی خود کشی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ برس برطانیہ کے ایک وزیر نے بھی خود کشی کی تھی۔ کارل سارجنٹ نامی رکن پارلیمان پر جب خواتین کو ہراساں کرنے کا الزام لگا تو انہوں نے شرمندگی سے بچنے کیلئے خود کشی کر لی۔ خود کشی کے بعض واقعات نہایت لرزہ خیز بھی ہوتے ہیںکہ یہ افراد خودکشی سے پہلے کئی افراد کو بھی موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل آکسفورڈ میں ایلن جیڈ نامی ایک شخص نے اپنی ماں، بہن اور سوتیلے باپ کو ذبح کر کے خود کشی کی تھی۔ برطانوی فوجیوں کے ساتھ اب طلبہ میں بھی یہ رجحان بڑھ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی جامعات میں سالانہ 95 طلبہ خود کشی کرتے ہیں، جس پر گہری تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جبکہ ملک بھر میں سالانہ ساڑھے چار ہزار افراد خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کے چراغ گل کردیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں فوج میں خودکشی کی روک تھام کیلئے ایک رہنما کتابچہ بھی تقسیم کیا گیا تھا۔ اب برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے کیلئے وزارتِ انسداد خودکشی قائم کرتے ہوئے پہلے وزیر کی تقرری کر دی ہے۔ وزیر اعظم نے دماغی امراض کے عالمی دن کے موقع پر ’’دماغی امراض، عدم مساوات اور انسداد خودکشی‘‘ کی وزارت کے قیام کا اعلان کیا۔ میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم تھریسا مے کی جانب سے سیکریٹری صحت میٹ ہینکوک نے وزارت انسداد خود کشی کی پہلی وزیر کیلئے ماہر نفسیات جیکی ڈوائل پرائس کے نام کا اعلان کیا۔ جیکی ڈوائل پرائس اس وقت وزیر صحت بھی ہیں۔ ایک برس سے وزیر صحت کی ذمہ داری نبھانے والی جیکی ڈوائل کو اب نئی وزارت کی اضافی ذمہ داریاں بھی تفویض کی گئی ہیں۔ ان کی اولین ذمہ داری خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ کا تعین کرکے سدباب کیلئے اہم اقدامات اٹھانا ہے۔ انسداد خودکشی کی وزیر کی تعیناتی اس وقت سامنے آئی ہے جب برطانیہ دماغی امراض کے سلسلے میں سالانہ سمٹ ہور ہی ہے، جس میں 50 ممالک شریک ہیں۔ برطانوی حکومت نے انسداد خود کشی کیلئے 2.4 ملین ڈالر کی رقم مختص کی ہے۔ تھریسامے کا بی سی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس نئی وزارت کے قیام کے بعد خود کشیوں کی تعداد میں بہت حد تک کمی آنے کی امید ہے۔ واضح رہے کہ برطانوی خود کشی سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا ایک بڑا سبب سوشل میڈیا ہے۔ خصوصاً طلبہ سوشل میڈیا سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کے استعمال کرنے والے ہر پانچ میں سے ایک بچے کو منفی پیغامات کی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور ایسے ہی بچے خود کشی کی کوشش کرتے ہیں۔ 14 سالہ ہانا اسمتھ نامی بچی کی خود کشی پر تحقیق ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس نے انٹرنیٹ پر مسلسل ڈرائے دھمکائے جانے پر خوفزدہ ہو کر گلے میں پھندا ڈالا تھا۔ جبکہ بعض ویب سائٹس میں صارفین کو باقاعدہ خود کشی کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ ویب سائٹس بچوں کی قتل گاہیں بنتی جا رہی ہیں، انہیں فوری طور پر بند کر دینا چاہئے، تاکہ ان کی طرح اور بہت سے والدین اپنے بچوں سے محروم نہ ہو سکیں۔ رپورٹ کے مطابق دس ستمبر کو انسداد خود کشی کا عالمی دن منانے کے باوجود ہر گزرتے سال کے ساتھ خودکشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا میں سالانہ دس لاکھ لوگ خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں ہر تین سیکنڈ میں ایک فرد خود کشی کی کوشش کرتا ہے، جبکہ ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسان خود کشی کرکے اپنی جان لے لیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق خود کشی اب ایک عالمی وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جس پر قابو پانا فی الحال ممکن نہیں۔ پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے 36 افراد خود کشی کرلیتے ہیں۔ 2020ء تک دنیا میں خود کشی کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد پندرہ لاکھ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ دنیا میں سب سے زیادہ خود کشیوں کی شرح سائوتھ کوریا میں دیکھی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post