عظمت علی رحمانی
لمز یونیورسٹی میں قادیانیت نے پنجے گاڑنے شروع کردیئے۔ واضح رہے کہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر تیمور الرحمان نے طلبا و طالبات کے ایک گروپ ’’رنگ‘‘ نامی این جی او کے زیر انتظام، ربوہ میں قادیانی مرکز کا دورہ کرایا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قادیانیت کے پرچار پر آئینی پابندی کے باعث اب قادیانیت کی جانب راغب کرنے کیلئے این جی اوز کو استعمال کرکے اعلی تعلیمی اداروں کے طلبہ تک رسائی حاصل کی جارہی ہے۔ علمائے کرام نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے واقعات پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنس (لمز) کے ڈپارٹمنٹ ہیومنٹیز اینڈ سوشل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر تیمور الرحمان کی جانب سے یونیورسٹی میں طلبا و طالبات کا ایک گروپ تیار کیا گیا، جس کے بعد ’’رنگ‘‘ نامی این جی او کے ذریعے ان طلبہ کا دورہ ربوہ میں قادیانیوں کے مرکز کا کرایا گیا جس کو مطالعاتی دورہ کا نام دیا گیا تھا۔ اس دورے میں قادیانی مرکز میں طلبہ کو پروجیکٹر کے ذریعے قادیانیوں کی سرگرمیاں دکھائی گئیں۔ گمراہ کرنے کیلئے نام نہاد رفاعی پروگرام بھی بتائے گئے جبکہ قادیانیوں کے تعلیمی بورڈ، نظارت کی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی معلومات دی گئیں اور طلبہ کو اس کی سی ڈیز بھی فراہم کی گئیں۔
واضح رہے کہ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ لمز کے طلبہ کا ربوہ کا دورہ کرنا قابل تشویش ہے اور قادیانی، آئین پاکستان کو تسلیم کرلیں بصورت دیگر وہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہیں۔ اس پر قادیانیوں کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ لمز یونیورسٹی کے طلبہ کا ربوہ کا دورہ کرنے کے بعد سراج الحق نے قادیانیوں کے بارے میں نفرت بھرا بیان دیا ہے۔ قادیانیوں کی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ ’’لمز یونیورسٹی کے طلبہ نے ربوہ کا دورہ کیا کرلیا، گویا ایک طوفان سا برپا ہوکر رہ گیا ہے۔ پاکستان میں ساری مذہبی جماعتیں ہمارے خلاف ہروقت ہی نفرت پھیلاتی رہتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی بیان جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق نے بھی دیا ہے۔‘‘ قادیانیوں کے اس نشریاتی ادارے نے اس دورے پر تبصرہ کرنے والے اوریا مقبول جان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے اور انہیں شدت پسند صحافی سے تشبیہ دی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے گزشتہ کچھ عرصہ سے قادیانیوں کی جانب سے بعض این جی اوز کے نام پر اپنے لوگوں کو اسائمنٹ دیئے جاتے ہیں اور جس کے ذریعے عوام اور طلبہ کو گمراہ کن معلومات ذہن نشین کرائی جاتی ہیں۔ اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اب مختلف تعلیمی اداروں میں گھسنے کیلئے مطالعاتی دورے کے نام سے باقاعدہ پرچار مہم چلائی جارہی ہے۔ اسی طرح کی ایک سرگرمی اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ بھی کی گئی تھی اور اب لمز کے اسسٹنٹ پروفیسر جو گلوکار بھی ہیں، ان کے ذریعے کی گئی۔
اس حوالے سے مجلس احرار اسلام کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالطیف خالد چیمہ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’قادیانیوں کو کیونکہ اپنے گمراہ کن عقائد کی تبلیغ کی اجازت نہیں ہے اور وہ قانونی طور پر ایسا نہیں کرسکتے، اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ این جی اوز کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی اداروں تک کسی نہ کسی طرح رسائی حاصل کریں۔ اس کے بعد مختلف ناموں سے ایم او یو، سائن کرتے ہیں اور پھر طلبہ کے مطالعاتی دوروں کے نام پر اپنی سرگرمیاں بھی جاری رکھتے ہیں۔‘‘
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا اکرم طوفانی کا کہنا تھا کہ ’’قادیانیوں کی جانب سے پر حربہ استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح عوام کے ذہن میں ابہام پھیلائیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات منسوب کرکے ذہنوں کو تذبذب کا شکار بنائیں اور پھر انہیں اپنی جانب راغب کریں۔ یہ طریقہ کار ان کا پرانا ہے کہ این جی اوز کو استعمال کریں۔ گزشتہ تقریباً ایک دو برس سے این جی اوز کے ذریعے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قادیانیوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح قادیانیوں نے اسپتال بنا کر بھی غریب اور بیماروں کو ذہنی بیمار بنانے کی بھی مہم شروع کررکھی ہے۔ تاہم ہم نے ہر میدان میں انشااللہ ان کو شکست دینی ہے۔‘‘ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت خیبر پختون کے امیر مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا کہنا تھا کہ ’’قادیانیوں نے خیبر پختون میں بھی ایسا کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ان کی ہر کوشش کو ناکام بنایا گیا ہے۔ اب یہ این جی اوز کے ذریعے سے تعلیمی اداروں میں آتے ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ کو ان کے طریقہ واردات کا علم نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے سادہ لوح لوگ ان کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں۔‘‘
انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے رہنما مولانا بدرعالم چنیوٹی کا کہنا تھا کہ ’’ہماری حکومت سے اور بالخصوص وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری اور وزیر تعلیم شفقت محمود سے درخواست ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں قادیانیوں کی ان سرگرمیوں کا نوٹس لیں۔ جامعات میں ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے اور یونیورسٹی کے منتطمین کو پابند کیا جائے کہ وہ آئندہ کسی بھی این جی او کے ذریعے طلبہ کے مطالعاتی دورے کی پہلے مکمل تفصیل لیں اس کے بعد ہی طلبہ کو اجازت دیں۔‘‘
٭٭٭٭٭