نجم الحسن عارف
پی ٹی آئی حکومت کی سیاسی و معاشی مشکلات نیب کو مطلوب امریکہ میں پاکستانی سفیر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے کاروباری شراکت دار علی جہانگیر صدیقی کیلئے نعمت بن گئی۔ اسلام آباد میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرونی مسائل، ضمنی انتخابات کے چیلنج، اتحادیوں کے مطالبات اور منہ زوری کے علاوہ آتے ہی بدترین مالی حالات سے سامنے کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت ابھی سیاسی طور پر بھرتی کئے گئے سفیروں کے بارے میں سوچنے کے لئے وقت ہی نہیں نکال سکی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق سر منڈواتے ہی اولے پڑنے کے مصداق حکومت کو آتے ہی جن چیلنجوں نے گھیر لیا۔ انہی کے باعث وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے حلف کے روز ہی سیاسی بنیادوں پر تعینات کئے گئے سفیروں سے متعلق فائل یہ کہہ کر واپس کر دی تھی کہ عجلت میں یہ فیصلہ نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی تقریباً ڈیڑھ درجن سیاسی سفیروں کو تاحکم ثانی اپنا کام جاری رکھنے کا خط بھیج دیا گیا۔ تاہم ’’امت‘‘ کے ذرائع نے اس امر کی تصدیق سے گریز کیا کہ جس بنیاد پر مذکورہ بالا سفیروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا تھا۔
اس بارے میں دفتر خارجہ سے ابھی تک حکومت نے رپورٹ طلب کر لی ہے یا نہیں؟ اس پر ذرائع نے کہا کہ وزیر خارجہ یا وزیراعظم جب بھی چاہیں گے، انہیں دفتر خارجہ کے متعلقہ حکام فوری طور پر پیش کر دی جائیں گی۔ لیکن فیصلہ کرنا وزیر اعظم عمران خان کا اختیار ہے کہ وہ سابقہ حکومت کے تعینات کردہ سیاسی سفیروں سے کام لیتے رہیں یا انہیں ان عہدوں سے الگ کرنے کا حکم جاری کر دیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق کمتر عددی برتری کے ساتھ انتخابی میدان مارنے والی پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو شروع میں وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کیلئے ادھر ادھر سے مدد لینا پڑی، یہ ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس میں کامیابی ہوئی تو کابینائوں میں نہ لئے جا سکنے والے ارکان اسمبلی اور پسند کے قلمدانوں کیلئے قیادت کو مشکلات میں ڈال دینے والوں کا فیز آ گیا۔ اس سے قدرے حکومت نے نکلنے میں کامیابی حاصل کی تو پھر سیاسی اتحادیوں کے مطالبات کا دبائو اور ضمنی انتخابات کا چیلنج تھا اور اب تک جاری اقتصادی چیلنج بھی ہے جس سے نکلنے کے لئے حکومت مسلسل ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے حکومت کی اعلیٰ قیادت نہیں چاہتی تھی کہ ایسے وقت میں ڈیڑھ درجن کے قریب ملکوں میں سفیروں کی تعیناتی کو ایک اور چیلنج کے طور پر اپنے لئے پیدا کرے کہ اس میں بھی پارٹی کے اندر اور اتحادی جماعتوں میں کئی امیدوار طلبگار سامنے آ سکتے تھے۔ حکومت نے اس صورت حال سے الجھنے سے بچنے کیلئے حکومت نے علی جہانگیر صدیقی کے مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث ہونے اور نیب کو مطلوب ہونے کے باوجود اس باب کو بند ہی رکھنا قبول کیا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ علی جہانگیر صدیقی کی سفارتی میدان میں مکمل ناتجربہ کاری اور امریکہ میں حالات کی ناسازگاری، دونوں کی وجہ سے علی جہانگیر صدیقی مئی کے اواخر سے لے کر اب تک دونوں ملکوں کے تعلقات کے لئے ایسا کچھ نہیں کر سکے کہ انہیں اس منصب پر فائز رکھنا موجودہ حکومت کی مجبوری بنے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ابھی پہلے سے موجود مسئلوں سے نکلنے کی کوشش میں ہے اس لئے مالی مشکلات اور سیاسی دشواریوں میں جیسے ہی کمی آئی تو سفیروں کی تبدیلی میں دیر نہیں لگے گی۔
واضح رہے کہ علی جہانگیر صدیقی نہ صرف سابقہ حکومت کی سیاسی تقرری کے کھاتے میں عمران حکومت کیلئے زیادہ پسندیدہ نہیں بلکہ نیب میں بھی ان کے خلاف انکوائریز چل رہی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 40 ارب روپے کی ہیرا پھیری کی ہے۔ اب ان کا نام سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے حوالے سے بھی سامنے آ چکا ہے کہ فواد حسن فواد بھی علی جہانگیر صدیقی کے ساتھ کاروباری شراکت میں رہے ہیں۔ اس صورت میں جہاں وہ نیب کو مطلوب ہیں، وہیں حکومت کیلئے بھی سخت ناپسندیدہ ہو سکتے ہیں۔ اب تک علی جہانگیر صدیقی مارچ 2018ء سے لے کر دو مرتبہ نیب میں پیشی بھگت چکے ہیں ، دوسری پیشی تین گھنٹے کے دورانیے پر محیط رہی تھی۔ تاہم بعد ازاں ماہ اگست کے اواخر اور 19 اکتوبر کو نیب نے انہیں دوبارہ طلب کیا، لیکن وہ نیب میں دونوں بار پیش نہیں ہوئے۔ نیب کے حکام اس بارے میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ نیب کسی ملزم کی عدم پیشی کے باعث قانونی ضابطے کے مطابق اپنی کارروائی بڑھانے کا حق رکھتا ہے۔
دوسری جانب دفتر خارجہ کے اعلیٰ ذرائع کے مطابق نیب کا قانون کسی محکمہ نظم و ضبط یا پروٹوکول کے تابع نہیں ہے۔ اگر نیب اعلیٰ عہدیداروں کو طلب اور گرفتار کر سکتا ہے تو سفیروں میں سے کوئی مطلوب ہو تو اس بارے میں بھی نیب کا اختیار مسلمہ ہے۔ اس سے نیب کے قانون اور ضابطے کے مطابق دفتر خارجہ نے پہلے کوئی رکاوٹ پیدا کی ہے نہ آئندہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اس لئے دفتر خارجہ نیب اور کسی افسر کے بیچ میں نہیں آ سکتا۔ یہ نیب اور متعلقہ افسر یا فرد کے درمیان معاملہ ہے۔ نیب کسی کو پکڑتا ہے یا نہیں پکڑتا ہے، یہ نیب کی صوابدید ہے۔ واضح رہے علی جہانگیر صدیقی اس سے اپنی کمپنیوں کے حصص سرکاری اداروں کو مہنگے بیچنے کے الزام میں 40 ارب روپے کی کرپشن کا الزام بھگت رہے ہیں۔ جبکہ فواد حسن فواد کے بیان کے بعد ان کے خلاف ایک نئے زاویئے سے انکوائری کا بھی امکان پیدا ہو گیا ہے۔ فواد حسن فواد کا سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے حوالے سے ایک بیان پہلے ہی بہت اہمیت کر چکا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرتے رہے، وزیراعظم کے احکامات پر عمل کے لئے کرتے رہے۔ دونوں اہم شخصیات آشیانہ ہائوسنگ اسکینڈل کے کھاتے میں زیر حراست ہیں لیکن نیب کی طرف سے علی جہانگیر صدیقی سفیر برائے امریکہ کے حوالے سے ابھی کوئی طلبی کی کوئی نئی تاریخ سامنے آئی ہے نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ ان کی گرفتاری کا کوئی فوری امکان ہے۔ ممکن ہے نیب اپنی کارروائی کو علی جہانگیر صدیقی کے سفارتی منصب کے دوران آہستہ آہستہ ہی آگے بڑھائے اور جب حکومت انہیں سفارتی ذمہ داری سے الگ کر دے تو نیب بھی زیادہ آسانی سے اپنی کاررروائی کر سکے۔ ’’امت‘‘ نے نیب کے ترجمان سے بھی رابطہ کی کوشش کی لیکن نیب ترجمان سے رابطہ نہ ہو سکا۔
٭٭٭٭٭