وجیہ احمد صدیقی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے تھر کے کوئلے سے بجلی کی تیاری کا ایک موثر طریقہ استعمال کیا اور ایک ٹن کوئلے سے ایک میگا واٹ بجلی تیار کرکے دکھا دی۔ لیکن اب یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا تجربہ ناکام رہا ہے۔ ’’امت‘‘ نے اس حوالے سے ڈاکٹر ثمر مبارک مند سے خصوصی بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ منصوبہ ناکام نہیں ہوا۔ بلکہ اس منصوبے کی فنڈنگ کو دانستہ طور پر روکا گیا تھا۔ یہ سندھ حکومت کا پروجیکٹ تھا، جس میں وفاقی حکومت فنڈنگ کررہی تھی۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کے بقول اس وقت کے پلاننگ کے وزیر احسن اقبال نے منصوبے کی تعریف بھی کی اور ساتھ ہی انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے اس تجربے اور پروجیکٹ کو نجی شعبے کو بیچ دیں۔ اس پر انہوں نے احسن اقبال سے کہا کہ یہ پروجیکٹ تو سندھ حکومت کا ہے، وہ اس کو نجی شعبے کے حوالے کیسے کرسکتے ہیں۔ اس پر احسن اقبال نے اپنے عملے کو حکم دیا کہ اس منصوبے کے تمام فنڈز کو فوری طور پر بند کردیا جائے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کاکہنا ہے کہ اگر ان کے اس منصوبے کو کامیابی سے چلنے دیا جاتا تو آج اس پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی بجلی کو 4 سے 5 روپے فی یونٹ فروخت کیا جارہا ہوتا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا ’’امت‘‘ تفصیلی انٹرویو نذر قارئین ہے
س: پلاننگ کے وزیر احسن اقبال نے تھرکول پروجیکٹ کی فنڈنگ روکنے کا کیا جواز بتایا تھا؟
ج: میری احسن اقبال سے جو گفتگو ہوئی وہ میں جوں کی توں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ جب ہمارا بجلی کی تیاری کا تجربہ کامیاب ہوا تو ہم بہت خوش ہوئے، کیونکہ جس دن ہم نے اپنی کامیابی کا مظاہرہ کیا، وہ 28 مئی 2015 کا دن تھا۔ اس دن پوری قوم کامیاب ایٹمی دھماکوں کی یاد میں یوم تکبیر مناتی ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ سندھ، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وفاقی سیکریٹری توانائی اور سیکریٹری انرجی سندھ کو اس کامیابی پر منصوبے کے منیجنگ ڈائریکٹر نے خطوط لکھے۔ توقع تھی اس کامیابی پر سب لوگ خوش ہوں گے اور مزید فنڈز جاری ہوں گے۔ لیکن کسی کی جانب سے مبارک باد کا فون نہیں آیا اور نہ کسی نے منصوبے کی اس کامیابی کے مظاہرے کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ صرف سیکریٹری انرجی سندھ نے مبارک باد کا خط لکھا، کیونکہ وہ اس پلانٹ کے ڈائریکٹر کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ احسن اقبال نے چونکہ جواب بھی نہیں دیا تھا، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ انہیں اس کامیابی کا مظاہرہ کرکے دکھایا جائے۔ اس لیے ان کو پلانٹ کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ انہیں اس دورے کیلئے قائل کرنے کی غرض سے ہم ویڈیوز لیکر ان کے دفتر پہنچے۔ ان ویڈیوز میں دکھایا گیا تھا کہ پلانٹس چل رہے ہیں اور کس طرح کوئلے کی گیس سے بجلی بن رہی ہے۔ احسن اقبال صاحب نے اس میٹنگ میں پلاننگ کمیشن کے تمام اہم افسران کو بٹھایا تھا۔ ہم نے اپنی کامیابی کی ویڈیو دکھانے کے بعد ان سے کہا کہ اب آپ مزید فنڈز ہمیں دیں تاکہ ہم اپنا 100 میگا واٹ بجلی تیار کرنے کا ہدف پورا کرلیں، اس کے بعد ہم خود کفیل ہوجائیں گے اور وفاقی حکومت سے مدد نہیں مانگیں گے۔ بلکہ آپ کہیںگے تو ہم اس منصوبے کو مزید آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ہماری جانب سے ویڈیو ڈیمانسٹریشن کے بعد احسن اقبال نے کہا کہ آپ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کامیاب ہے اور تھر کول پروجیکٹ میں آپ نے اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اب تعریف کے بعد احسن اقبال مزید فنڈز جاری کرنے کا حکم دیں گے۔ لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ اس پلانٹ کو اب فروخت کردیں، اسے نجی شعبے کے حوالے کردیں۔ میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ لیکن احسن اقبال اصرار کرتے رہے کہ نہیں، اس کو پرائیوٹائز کردیتے ہیں۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ کوئی میرا ذاتی منصوبہ تو ہے نہیں، کہ میں اسے بیچ دوں۔ یہ تو سندھ حکومت کی ملکیت ہے، یہ کوئلہ بھی سندھ حکومت کی ملکیت ہے۔ انہوں نے ہی پلاننگ کمیشن سے اس پروجیکٹ کی منظوری لے کر وفاقی حکومت سے فنڈنگ حاصل کی ہے اور وزارت خزانہ نے اس کی منظوری دی ہے۔ اس کا بجٹ بنتاہے، جس کو سندھ حکومت چلاتی ہے۔ اس منصوبے کا آڈٹ بھی ہوتا ہے۔ آپ کی حکومت نے 100 میگا واٹ تک فنڈنگ کی منظوری دی ہوئی ہے۔ لیکن اب آپ اس مرحلے پر منصوبے کو لپیٹ دینا چاہتے ہیں۔ آپ کو تو اپنے وعدے کا پاس رکھنا چاہیے تھا۔ لیکن احسن اقبال کا موڈ جارحانہ تھا، وہ اس پلانٹ کو بیچنے پر اصرار کرتے رہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ آپ اس منصوبے کا دورہ تو کریں، اس پر احسن اقبال نے بادل نخواستہ کہا کہ ’ہاں ہاں میں آئوں گا‘۔ لیکن وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے پلاننگ کمیشن کے افسران کو حکم دیا کہ آج کے بعد ان کے پروجیکٹ کی فنڈنگ بند کردیں اور اگر سندھ گورنمنٹ کی جانب سے کوئی بجٹ طلب بھی کیا جائے تو اس کو نظر انداز کردیں۔ بعد میں انہوں نے میڈیا میں اس حوالے سے سوال آنے پر کہا تھا کہ یہ پروجیکٹ چل بھی رہا ہے یا نہیں، یہ دیکھنے کے بعد ہم اس منصوبے کے فنڈز جاری کریں گے۔ لیکن یہ بات بھی انہوں نے 3 سال کے بعد 2017ء میں کہی تھی۔
س : اب کتنی فنڈز کی ضرورت ہے کہ جس سے یہ پروجیکٹ آگے بڑھ سکے اور منصوبے کی اب کیا صورتحال ہے؟
ج : چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سندھ کو حکم دیا ہے کہ اس پروجیکٹ کو ٹیک اوور کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ چور سامان بھی اٹھا کر لے جائیں۔ اس وقت 8 سے 10 لوگ آتے ہیں اور بلا تنخواہ کام کرکے چلے جاتے ہیں۔ یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس منصوبے کو چلانا بھی چاہتی ہے یا نہیں؟ میں نہیں کہہ سکتا کہ اب وفاقی حکومت اس پر رقم خرچ کرسکتی ہے یا نہیں؟ مجھے نہیں معلوم کہ اب منصوبے کی لاگت کتنی بڑھ گئی ہے۔ ہم اس منصوبے سے 100 میگاواٹ بجلی بناتے، جس پر 8 سے 10 روپے فی یونٹ لاگت آتی۔ لیکن کمرشل بنیادوں پر یہ لاگت کم ہوکر 4 سے 5 روپے فی یونٹ رہ جائے گی۔ لیکن ہمیں یہ تجربہ کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ہمیں جو رقم دی گئی، اس میں کوئی شخص سائیکل تیار کرنے کا پلانٹ ہی تیار کرکے دکھا دے۔
س: آپ کا دعویٰ تھا کہ کول گیسی فکیشن کی وجہ سے بڑی مقدار میں بجلی پیدا ہوگی۔ لیکن بعض وکلا کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے بجلی پیدا نہیں ہوسکتی۔ دنیا کے وہ کون سے ممالک ہیںجہاں اس طریقے سے بجلی پیدا کی جارہی ہے ؟
ج : جس طرح میں قانون کا ماہر نہیں، اسی طرح وکلا بھی سائنس دان نہیں ہیں، اس بارے میں ان کی رائے کو سند نہیں مانا جاسکتا۔ اس شعبے کے ماہرین کی رائے ہی مستند ہوگی۔ اس بارے میں میرا کہنا ہے کہ جو ممالک کول گیسی فکیشن (کوئلے سے گیس بنانا) کرتے ہیں، ان میں سے بیشتر اسے بجلی بنانے کیلئے جلاتے نہیں ہیں، کیونکہ یہ گیس بہت قیمتی ہے۔ چین میں کم از کم 15 ایسے مقامات ہیں، جہاں کول گیسی فیکشن ہورہی ہے۔ اندرون منگولیا میں اسی قسم کے کوئلے سے گیسی فکیشن کی جارہی ہے جو تھر میںموجود ہے۔ یعنی لگنائیٹ (lignite coal)۔ کوئلے کی یہ قسم گیسی فکیشن کیلئے موزوں ترین ہے۔ جنوبی افریقہ، قزاقستان اور تاشقند میں بھی کول گیسی فکیشن ہورہی ہے، کیونکہ وہاں لگنائیٹ کوئلہ موجود ہے۔ چین میں کول گیسی فکیشن سے ڈیزل بناتے ہیں۔ میں اس پلانٹ کا دورہ کرکے آیا ہوں جو چین کے علاقے بائو جی میں ہے اور اس پلانٹ کی کارکردگی نہایت شاندار ہے۔ اس پلانٹ سے وہ کھاد بھی بناتے ہیں۔ کول گیس سے ہائیڈروجن گیس بھی حاصل کرتے ہیں اور اسے کمرشل بنیادوں پر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کول گیس کو گھروں میں چولہے جلانے کیلئے بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ چین میں بجلی بنانے کیلئے ان کا کوئلہ سطح زمین پر پڑا ہوا ہے، جسے وہ اپنے کول پلانٹ میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم اسی کی وجہ سے چین میں بڑے پیمانے پر آلودگی ہورہی ہے۔ آسٹریلیا میں ڈیزل بنانے کیلئے پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔ آسٹریلیا میں 8 سے 10 سال تک کول گیس پر ریسرچ ہوتی رہی ہے اور اب وہ کول گیس کے کمرشل پلانٹس لگارہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں مجوبا کے مقام پر کول گیس کے ذریعے کمرشل بنیادوں پر ڈیزل بنایا جارہا ہے۔ Sasol نامی کمپنی یہ کام کررہی ہے، جو روزانہ ڈیڑھ دو لاکھ بیرل ڈیزل بناتی ہے۔ اس کی قیمت 25 سے 30 ڈالر فی بیرل ہوتی ہے، جبکہ آج کل خام تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل پہنچی ہوئی ہے۔ یہ تو میں نے چند بڑے بڑے منصوبوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا، برطانیہ اور دنیا کے کئی قابل ذکر ممالک میں یہ کام ہورہا ہے۔
س: اگر پاکستان میں اتنے اسٹینڈرڈ کا کوئلہ موجود ہے تو غیر ملکی کمپنیوں نے اس جانب کیوں توجہ نہیں کی؟
ج: جب ہم نے تھرکول کا بلاک 5 کام کرنے کیلئے حاصل کیا تو اسی دن ہمارے ساتھ بلاک 3 برطانیہ کی ایک بہت بڑی کمپنی گوگریو کے لمیٹڈ نے لیا تھا۔ انہوں نے یہ طے کرکے کول مائننگ کا بلاک لیا تھا کہ وہ یہاں پر زیر زمین گیسی فکیشن کریں گے۔ انہوں نے ایک دو سال کام کیا لیکن دہشت گردی کے خوف سے وہ واپس چلے گئے۔ یہ ناممکن بات نہیں ہے۔ ہوا یہ ہے کہ اگر آپ کے گھر کی تعمیر کا تخمینہ ایک کروڑ روپے لگایا گیا ہے، تین سال میں آپ کو گھر بنانا ہے۔ لیکن آپ کو اگر 8 سال میں صرف 30 لاکھ روپے ہی میسر ہوں تو آپ ایک کمرہ بناکر ہی اس میں رہ سکتے ہیں۔ یہی کچھ تھر کول منصوبے کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ 100 میگا واٹ بجلی کا پروجیکٹ تھا۔ 2010ء میں اس منصوبے کی منظوری دی گئی۔ دو سال میں اس منصوبے کی کل فنڈنگ ہونی تھی اور 2012ء میں اسے مکمل ہونا تھا۔ لیکن 2018ء میں ہمیں صرف 37 فیصد فنڈ ملا۔ اس کے باوجود ہم نے اپنے سائنسدانوں کو کہا کہ اتنی ہی رقم میں گیس بنا کر دکھا دو کہ شروع سے لوگوں کو گیس کی تیاری نظر آئے اور ہم اس منصوبے سے تجرباتی طور پر بجلی بنا کر دکھا چکے ہیں۔ یہ مئی 2015ء کی بات ہے۔ ہم نے ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کردیا تھا۔ اگر ہمیں مزید رقم ملتی تو ہم کمرشل بنیاد پر بجلی بنانے کا مظاہرہ کرتے۔ جس کے ہماری معیشت پر بھی مثبت اثرات پڑتے اور کول گیسی فکیشن سے بجلی تیار کرنے کی لاگت بھی کم ہوتی۔ یہ پاور پروجیکٹ اپنے ہی بل بوتے پر ترقی کرتا۔ تھر کول کا پروجیکٹ کا پاکستان کی معیشت پر بہت اچھا اثر پڑنا تھا۔ اس منصوبے پر کام کرنے والی ٹیم بہت اچھی تھی، اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو نیوکلیئر پروگرام سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ آج کل منفی مزاج میڈیا ایسی غلط خبروں کو اچھالتا ہے جس سے دکھ ہوتا ہے۔ اس سے قبل ایک مشین کی خریداری کے معاملے میں مجھے کورٹ طلب کیا گیا تھا، لیکن جب اس خریداری کا تین مرتبہ آڈٹ کرانے کے بعد بھی کچھ نہ نکلا تو میڈیا کی جانب سے یہ نہیں کہا گیا کہ ڈاکٹر ثمر مبارک کا دامن اس معاملے میں بالکل صاف تھا۔ تھرکول منصوبے کی انکوائری سے بھی ہم پرکچھ ثابت نہیں ہوسکے گا۔ میں امیدکرتا ہوں کہ میڈیا حقائق عوام کے سامنے لائے گا۔
٭٭٭٭٭