کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو) پراسیکیوٹرزکی شدید کمی اور ڈیپوٹیشن تعیناتی پر سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود متعدد مقدمات التوا کا شکار ہونے پر ایف آئی اے نے حکومت سندھ سے سرکاری وکلا کی فراہم کی درخواست کر دی ۔ڈیپوٹیشن پر پابندی کی بنا پر نئی وضع کردہ اصطلاح ’’ورک اسائن‘‘ کے نام پرمحکمہ قانون وپراسیکیوٹر جنرل کی سفارش پر چیف سیکریٹری نے6 اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز کی خدمات ایف آئی کے سپرد کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف آئی نے متعدد محکموں کیخلاف پراسیکیوشن بحران شدت اختیار کئے جانے پر حکومت سندھ سےگریڈ17 کے6 اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز کی خدمات ڈیپوٹیشن پر فراہم کرنے کی درخواست کر دی۔سپریم کورٹ آئینی درخواست 03/2014وسی ایم اے نمبر 8540/2015 کے تحت 26 ستمبر 2016 کو سنائے گئے فیصلے کے تحت تمام محکموں میں ڈیٹیلمینٹ اور ڈیپوٹیشن پر تقرر اور تعیناتیوں پر پابندی عائد کر چکی ہے ۔عدالتی فیصلے کے باوجود سیاسی اثر رسوخ کی بنا پر اب بھی سیکڑوں افسران مختلف محکموں میں ڈیٹیلمینٹ و ڈیپوٹیشن پر تعینات ہیں۔ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے ایڈیشل ڈائریکٹر ایڈمن کی جانب سے9 اکتوبر2018 کو چیف سیکریٹری سندھ کو لیٹر نمبرG-03/2018/B-1646-67 ارسال کیا گیا جس کے جواب میں پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے 14 جولائی 2018کو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر انویسٹی گیشن کے نام لیٹرنمبرPGS/Admin/40-16/2010/2271 میں6 اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز کی خدمات دینے کی اطلاع دی گئی۔ ان افسران میں گریڈ17کے ضلع ملیر کےفقیر طاہر حسین، ٹنڈو محمد خان کے غضنفر علی، شرقی کے خالد حسین، ٹھٹہ کے احسان اللہ، خیرپور کے اسد اللہ میتلو اور ضلع گھوٹکی کے منیر احمد شامل ہیں تاہم ابھی ان کی خدمات وفاقی تحقیقاتی ادارے کو نہیں سونپی گئی ہیں۔پراسیکیوٹر جنرل سندھ ایاز حسین تنیو نے رابطے پر امت کو بتایا کہ ڈیپوٹیشن پر عدالتی پابندی کی وجہ اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز کی خدمات ورک اسائن کی بنیاد پر ایف آئی اے کودینے کی منظوری دی گئی ہے۔یہ منظوری سیاسی دباؤ یا سفارش پر نہیں دی گئی ۔انہوں نے بتایا کہ کئی برس بعد بھی ایف آئی اے سے واپس نہ آنے والے اسٹنٹ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر مقصود احمد نقوی کا معاملہ دیکھیں گے۔ نجی وکلا کی خدمات رینجرز کو دینے کے معاملے میں فیصلے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کئے جائیں گے۔