سرفروش

0

قسط نمبر: 150
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
الکھ سنگھ کا خطرناک سوال اس قدر اچانک اور غیر متوقع تھا کہ میں ششدر رہ گیا۔ یہ پوچھتے ہوئے وہ چھید کر دینے والی نظروں سے میرے چہرے کے تاثرات کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔ میں نے لمحہ بھر میں اس سوال کے جواب کے مضمرات کے بارے میں غورکر کے برق رفتاری سے اپنے ذہن میں وہ تمام معلومات دہرائیں، جو میں نے محض کرکٹ سے والہانہ عشق کے چکر میں انگلستان کے بارے میں پڑھ ڈالی تھیں۔
ادھر الکھ سنگھ نے میری خاموشی کو کسی اور رنگ میں لیا تھا۔ ’’کیا ہوا کاکے؟ اپنے رہائشی علاقے کا نام یاد نہیں آرہا یا پتا جی کے ڈھابے کا نام بھول گئے ہو؟ میں یاد دلاؤں؟‘‘۔
میں نے خاصے نرم لیکن طنز سے بھرپور لہجے میں کہا۔ ’’وہ کوئی ڈھابا نہیں، انتہائی عمدہ قسم کا ریسٹورنٹس ہے۔ جہاں اونچے طبقے کے انگریز بھی اپنے کنبے سمیت فخر سے آتے ہیں۔ میں صرف آپ کے اس سوال کا مقصد سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا‘‘۔
الکھ سنگھ نے بے نیازی سے کہا۔ ’’مطلب چھوڑو۔ میں نے جو پوچھا ہے، وہ بتاؤ۔ وہاں انگریزوں کے ساتھ میرے جیسے ہندوستانی بھی آتے ہوں گے۔ ذرا محل وقوع بتاؤ۔ اس بہانے لندن کی یادیں بھی تازہ ہوجائیں گی‘‘۔
میں اس دوران اس کے سوال کا ممکنہ حد تک قابلِ قبول جواب ڈھونڈ چکا تھا۔ لہٰذا میں نے قدرے جارحانہ لہجے میں جواب دیا۔ ’’اگر براہم دیپ سنگھ جی اور ان کے دونوں بیٹوں کی مہربانیاں درمیان میں نہ ہوتیں تو میں آپ کے اس سوال کو توہین مان کر اسی کے مطابق جواب دیتا۔ بہرحال، ہمارا گھر اور ریسٹورنٹ لندن میں نہیں ناٹنگھم میں ہیں۔ ٹرینٹ برج کا نام تو سنا ہوگا؟ یہ مشہور کرکٹ اسٹیڈیم ہمارے ہی شہر میں ہے۔ ڈربی روڈ پر واقع ہمارے ریسٹورنٹ کا نام جینفر اِن ہے اور ہمارا گھر کارلٹن ویلی میں واقع ہے۔ اور کچھ؟‘‘۔
یقین سے کہنا مشکل ہے کہ وہ میری فراہم کردہ معلومات کو جھٹلانے کے قابل نہیں تھا یا میرے جارحانہ لہجے نے اسے پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ بہر حال مجھے اس کی آنکھوں کی چمک پھیکی پڑتی نظر آئی اور چہرے پر بھی پھٹکار کھنڈ گئی۔
الکھ سنگھ کے کچھ کہنے سے پہلے براہم دیپ سنگھ جی اس پر چڑھ دوڑے۔ ’’او الکھ بھائی جی، ہمارے مہمان کی اس طرح توہین کا حق تمہیں کس نے دیا؟ میں نے کئی بار تمہیں سمجھایا کہ اپنی داروغہ گیری گھر چھوڑ کر یہاں آیا کرو۔ یہ تمہارا تھانا نہیں ہے، اور نہ ہی اس گھر میں جھجر قصبے کے غریب گوجر بستے ہیں، جن پر تم دھونس جمالو گے‘‘۔
براہم دیپ سنگھ کی سرزنش سے الکھ سنگھ واضح طور پر شرمسار دکھائی دیا۔ رہی سہی کسر امر دیپ نے پوری کردی۔ ’’پھپھڑ جی، آج آپ نے میری نظر میں اپنی عزت مزید گرادی۔ کسی بھی سردار گھرانے میں مہمان کو واہگورو کا بھیجا ہوا پرسکار (انعام، اعزاز) سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے بزرگوں سے سنا ہے کہ عزت دار سردار تو اپنے گھر آنے والے جانی دشمن کے قدموں میں بھی بچھ جاتے ہیں، اور آپ نے آج ایک ایسے معزز مہمان کی بے عزتی کردی جو پتا جی اور بشنو کی پُرزور دعوت پر ہمارے گھر آیا ہے‘‘۔
صورتِ حال کو تلخی کی طرف جاتے دیکھ کر مجھے ادراک ہوا کہ معاملے کا مزید بگڑنا میرے مشن کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ الکھ سنگھ نامی اس خرانٹ شخص کی اتنی خاطر تواضع بہت ہے۔ ورنہ یہ میرا کٹّر دشمن بن جائے گا۔ لہٰذا میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’امر دیپ بھائی، سردار جی، اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی آپ کی طرح میرے بزرگ ہیں۔ میں ان سے ناراض نہیں ہوں‘‘۔ پھر میں الکھ سنگھ کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’پھوپھا جی، امید ہے اب آپ کی تسلی ہوگئی ہوگی!‘‘۔
وہ کھسیانے لہجے میں بولا۔ ’’او کاکے، میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ یہ دونوں باپ بیٹے بھی خوا مخواہ گرم ہو رہے ہیں۔ چلو مٹی ڈالو اس بات پر اور سب غصہ تھوک دو‘‘۔
میں سب سمجھ رہا تھا۔ اس نے اتنا ذلیل ہونے کے باوجود معافی مانگنا تو کیا، اپنی غلطی بھی تسلیم نہیں کی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں میرے خلاف شک کا ناگ بدستور بل کھارہا ہے اور یہ محض وقتی طور پر پسپا ہوا ہے۔ میری طرف سے کوئی مشکوک یا متضاد بات سامنے آتے ہی یہ مجھے ڈسنے کا موقع ضائع نہیں کرے گا۔ ہو سکتا ہے یہ دھیرے دھیرے میرے میزبانوں کے دلوں میں بھی میرے لیے شک پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔ مجھے محتاط، بلکہ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
میری طرف سے مصالحانہ پیش قدمی اور الکھ سنگھ کی طرف سے بات پلٹنے کے نتیجے میں ماحول کا تناؤ رفتہ رفتہ زائل ہوگیا اور براہم دیپ جی کے چہرے پر ان کی زندہ دلی سے بھرپور مسکراہٹ بھی لوٹ آئی۔ اس دوران میں بشن دیپ بھی وہاں آگیا۔ اس کی چھوٹی بیٹی بھی ساتھ تھی۔ میں بشن دیپ سے باتیں کرنے لگا۔
الکھ سنگھ کی براہم دیپ اور امر دیپ سے کچھ ہی دیر کی گفتگو میں اندازہ ہو گیا کہ الکھ سنگھ مالی مسائل کا شکار ہے اور براہم دیپ سے مشاورت کے لیے آیا ہے۔ براہم دیپ اسے سمجھا رہے تھے کہ اس کے پاس موجود پانچ چھ کلے زرعی اراضی پر گندم، کپاس یا دھان اگانے سے اتنی آمدنی نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے اچھے خاصے بڑے خاندان سمیت سال پر اچھی طرح گزر بسر کر سکے۔ انہوں نے اپنے بہنوئی کو امر دیپ کے تجربے سے فائدہ اٹھاکر اپنے رقبے پر پھلوں کے باغات اگانے کا مشورہ دیا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More