عظمت علی رحمانی
بینظیر بھٹو یونیورسٹی لاڑکانہ میں 400 جعلی بھرتیاں کی گئیں۔ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر غلام اصغر چنہ نے جامعہ کی 22 ایکڑ اراضی کمشنر لاڑکانہ کو دی تھی۔ جبکہ کمشنر لاڑکانہ محمد عباس بلوچ حکومت سے دفتر کے نام پر 6 ایکڑ اراضی بھی لے چکے ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ کے حکم پر شروع کی گئی انکوائری ٹھپ کردی گئی ہے۔
شہید بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر غلام اصغر چنہ اور عدالتی حکم کے برخلاف تعینات ہونے والے قائم مقام رجسٹرار افسر علی بھٹو نے جامعہ میں27 فروری 2017ء کو 401 غیر قانونی بھرتیاں کیں۔ اس بھرتی کے عمل کی نگرانی کیلئے کمیٹی بنائی گئی، جس کا چیئرمین قائم مقام رجسٹرار، افسر علی بھٹو کو بنایا گیا تھا۔ کمیٹی کے دیگر 4 ممبران میں ڈائریکٹر ہیومن ریسورس، زیبسٹ کے استاد اور دو ماہرین کے علاوہ ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس شامل تھے۔ حیرت انگیز طور پر بھرتی کمیٹی کے ممبر اور ڈائریکٹر ہیومن ریسورس ماجد سموں گریڈ 17 کے افسر ہیں، جن کو گریڈ 20 پر ڈائریکٹر ہیومن ریسورس تعینات کر کے، ان سے بھرتیوں کا کام لیا گیا۔ ان بھرتیوں میں یونیورسٹی کیلئے 171 ملازمین اور اس کے ساتھ ملحقہ اداروں چانڈکا میڈیکل کالج کیلئے 82 ملازمین، غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر میں 145ملازمین، بی بی آصفہ ڈینٹل کالج میں 121 ملازمین، بینظیر انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ اینڈ کمیونٹی ہیلتھ سائنس لاڑکانہ میں 33 ملازمین اور ڈپارٹمنٹ آف فارمیسی میں 11 ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ ان بھرتیوں کیلئے ریکارڈ کے مطابق 1808 درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں سے 9 اکاؤنٹنٹس، 14 اسسٹنٹس،51 کمپیوٹر آپریٹرز، 8 پرسنل اسسٹنٹس، 19 سینئر کلرکس، 95 جونیئر کلرکس، 55 چوکیدار، 17 ڈرائیور، 3 الیکٹریشن، 3 پلمبر، 45 مالی، 53 نائب قاصد، 5 کُک، 5 آیا، 19 سینٹری ورکرز سمیت مجموعی طور پر 401 ملازمین کی بھرتیاں کی گئیں۔ ان بھرتیوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے بھرتیوں کے ٹیسٹ میں حصہ تک نہیں لیا۔ تاہم ان کو قائم مقام رجسٹرار افسر علی بھٹو نے جوائننگ لیٹر تک جاری کر دیئے اور ان کی تنجواہیں بمع بونس بھی دینا شروع کردیں۔ بھرتیوں میں قائم مقام رجسٹرار افسر علی بھٹو نے اپنے بیٹے کاظم علی کو اکاؤنٹنٹ بھرتی کیا تھا، جبکہ جامعہ کے ہی ایک ہی افسر کے بیٹے خلیل الرحمان شیخ کو بھی کمپیوٹر آپریٹر بھرتی کیا گیا۔ یونیورسٹی کے ہی ایک استاد ہدایت اللہ بھٹی کے بیٹے گدا حسین بھٹی کو بھی کمپیوٹر آپریٹر بھرتی کیا گیا ہے۔ آصف علی ولد میر خشک کو جونیئر کلرک، محمد حفیظ ولد محمد یونس کو جونیئر کلرک اور احسان علی ولد محمد یونس کو بھی جونیئر کلرک بھرتی کیا گیا۔ بھرتی ملازمین میں جاوید علی ولد نور علی کلہوڑو مقامی اخبار کا صحافی ہے، جبکہ عبدالمنان ولد عبدالستار بھی قائم مقام رجسٹرارکا قریبی عزیز ہے۔ اس کے علاوہ ان بھرتی شدہ ملازمین میں 32 کمپیوٹر آپریٹرز میں سے 16 کے پاس متعلقہ تجربہ اور ڈگری نہیں ہے۔ ان میں سے 6 ملازمین تاحال دبئی میں ملازمت کر رہے ہیں، جبکہ یہاں سے سرکاری تنخواہ لے رہے ہیں۔
ان بھرتیوں کے بعد اساتذہ تنظیموں کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ کو درخواستیں بھیجی گئیں کہ ضوابط اور ایس او پیز کے برعکس یہ بھرتیاں کی گئی ہیں، جس کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے 17 جولائی 2017ء کو ان بھرتیوں کی انکوائری کرنے کیلئے کمشنر لاڑکانہ کی چیئرمین شپ میں ایک 3 رکنی کمیٹی قائم کی گئی کہ وہ اس کی ا نکوائری کریں کہ واقعی بھرتیوں کا عمل غیر قانونی انداز میں کیا گیا ہے؟ تین رکنی کمیٹی میں کمشنر لاڑکانہ محمد عباس بلوچ ، نور محمد شاہ اور شیر محمد شیخ شامل تھے۔ اس کمیٹی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو رپورٹ ارسال کی گئی کہ بھرتیوں کے عمل میں ضوابط کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ رپورٹ وزیر اعلیٰ سندھ کے دفتر پہنچ گئی تھی، تاہم اسے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے بعض عناصر نے دبا دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر غلام اصغر چنہ نے کمشنر لاڑکانہ محمد عباس بلوچ کو کمشنر آفس کے دفتر کے نام پر 6 ایکڑ ملنے کے باوجود بھی 22 ایکڑ مزید اراضی اس لئے فراہم کی، تاکہ انہیں سفارشوں پر وائس چانسلر شپ کا دوسرا دور بھی فراہم کردیا جائے۔ اسی مقصد کیلئے انہوں نے ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے سرجری افسر علی بھٹو کو ریٹائرڈ ہونے کے فوراً بعد ہی 4 جنوری 2017ء کو جامعہ کا قائم مقام رجسٹرار بنادیا تھا۔ افسر علی بھٹو کو اتنا بڑا عہدہ دینے کا مقصد ان کے قریبی عزیز کے ذریعے سفارش کرانا تھا۔ ڈاکٹر افسر علی بھٹو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بلاول ہاؤس کے ترجمان جمیل سومرو کے قریبی عزیز ہیں۔
غیر قانونی بھرتی شدہ ملازمین کیلئے قائم مقام رجسٹرار افسر علی بھٹو نے جامعہ کے ڈائریکٹر فنانس کو تنخواہیں جاری کرنے کا کہا، جس پر انہوں نے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد ڈائریکٹر فنانس زاہد حسین دھاریجو نے سیکریٹری بورڈ اینڈ بورڈز کو مکتوب لکھ کر قائم مقام رجسٹرار افسر بھٹو کی شکایات کی، جس کے بعد بجائے انکوائری کرنے کے، ڈائریکٹر فنانس کو ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ لیکن ڈائریکٹر فنانس زاہد حسین دھاریجو نے ہائی کورٹ سندھ سے رجوع کیا، جس کے بعد ہائی کورٹ نے 7 ستمبر 2018ء کو متعلقہ اتھارٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ گریڈ 20 کے ڈائریکٹر فنانس کو اپنے عہدے پر قائم رکھتے ہوئے انہیں خدمات انجام دینے دیں۔
ذرائع کے مطابق کمشنر لاڑکانہ عباس بلوچ کو، پیپلز پارٹی کی ایک خاتون رہنما کی سرپرستی حاصل ہے۔ اسی لئے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر علی نے ان کو جامعہ کی 22 ایکڑ اراضی بغیر کسی تحریری حکم نامے کے فراہم کی۔ اس حوالے سے نمائندہ ’’امت‘‘ نے کمشنر لاڑکانہ محمد عباس بلوچ سے رابطہ کیا، تاہم ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔