احمد نجیب زادے
بوسٹن کے آر آر نیلام گھر نے تصدیق کر دی ہے کہ چاند کا ایک ساڑھے پانچ کلو گرام کا چٹانی ٹکڑا 6 لاکھ ساڑھے 12 ہزار ڈالر (تقریباً 8 کروڑ پاکستانی روپے) میں نیلام ہو گیا ہے۔ فروخت کنندہ اور خریدار کا نام سیکورٹی وجوہات کی بنا پر خفیہ رکھا گیا ہے۔ چاند کے اس خوبصورت، انمول اور قیمتی ٹکڑے کو ویتنام کے ایک بودھ پگوڈا میں سیاحوں اور زائرین کی دلچسپی کیلئے رکھ دیا گیا ہے، جہاں ایک مخصوص علامتی قیمت ادا کر کے زائرین اور بودھ عقائد کے حامل افراد اس کو دیکھ سکیں گے۔ افریقی نیوز پورٹل ’’آل افریقا ڈاٹ کام‘‘ نے بتایا ہے کہ سائنسی ماہرین اور فلکیاتی محققین نے چاند کے اس چٹانی ٹکڑے کا معائنہ کر کے بتایا ہے کہ یہ انتہائی قیمتی ہے اور ماضی میں کسی وقت چاند کی سطح سے الگ ہوکر 3 لاکھ 84 ہزار کلو میٹر کے فاصلے سے برق رفتاری سے زمین کی جانب پہنچا ہے۔ زمین کی جانب سے تیز رفتاری، کشش ثقل اور فضائی رگڑ سے اس کا حجم کم ضرور ہوا ہوگا، لیکن جب چاند کا یہ ٹکڑا زمین پر پہنچا تو بھی اس کا وزن غیر معمولی تھا، جو ماہرین کیلئے حیرت انگیز امر ہے۔ یہ ٹکڑا موریطانیہ میں صحرائی علاقہ میں گرا تھا، جس کو ایک مقامی افریقی باشندے نے کھوجا کہ یہ ٹکڑا زمینی چٹان کا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اس نے یہ ٹکڑا حفاظت سے رکھا اور اس کو ایک مقامی متمول فرد کو بیچ دیا، جس نے اس کی ایک معقول قیمت ادا کی تھی۔ خریدار کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ ٹکڑا زمین پر نہیں پایا جاتا۔ امریکی میڈیا کے مطابق چاند کے اس چٹانی ٹکڑے کو امریکی فلکیاتی ماہرین نے سائنٹیفک طریقہ پر پرکھا اور اعلان کیا کہ یہ چاند کا ٹکڑا/ شہاب ثاقب ہے، جو زمین پر آن گرا ہے۔ اس پر موریطانیہ کے اس تاجر کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور اس نے ایک معقول کمیشن کی ادائیگی پر امریکی شہر بوسٹن کے آر آر نیلام گھر کی انتظامیہ کی مدد اس کو عالمی نیلامی کیلئے پیش کر دیا اور یوں یہ چاند کا ٹکڑا چھ لاکھ ساڑھے بارہ ہزار امریکی ڈالر میں ہاتھوں ہاتھ خرید لیا گیا۔ مقامی امریکی جریدے بوسٹن گلوب کے مطابق یہاں کے ایک عالمی شہرت یافتہ نیلام گھر نے بتایا ہے کہ چاند کا یہ حسین ٹکڑا ویتنام کے ’’تام چیک پگوڈا ‘‘میں رکھ دیا گیا ہے اور اس کی حفاظت کیلئے خصوصی بندوبست کیا گیا ہے، جس میں مسلح گارڈز اور حساس کیمرے اور سینسرز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چاند کے اس ٹکڑے کے حوالے سے مقامی ویتنامی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ٹکڑا بودھ مذہب کے ماننے والوں کیلئے روحانی حیثیت بھی رکھتا ہے، اسی لئے اس چاند کے چٹانی ٹکڑے کو ویتنام ہی میں نیلامی کیلئے رکھا گیا تھا کیونکہ ایک ویتنامی ارب پتی نے اس ٹکڑے کو منہ مانگے داموں خرید کر اس ٹکڑے کو ویتنامی پگوڈے کی زینت بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ برطانوی جریدے ڈیلی ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 6 پائونڈز وزنی چاند کا یہ چٹانی ٹکڑا اگرچہ کہ امریکا میں افریقہ سے لایا گیا تھا اور اس کو ویتنام میں بیچا گیا، لیکن در حقیقت یہ نامعلوم سال میں افریقی ملک موریطانیہ میں چاند سے زمین پر گرا تھا، جو شہاب ثاقب کی دنیا میں پائی جانے والی سب سے قیمتی اور وزن اور حجم کے اعتبار سے سب سے بڑا ٹکڑا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی ماہرین فلکیات نے چاند کے اس ٹکڑے کی سائنسی تحقیق کرلی تھی اور تصدیق کی تھی کہ یہ چٹانی ٹکڑا در حقیقت چاند سے ہی تعلق رکھتا ہے اور اب تک دنیا میں پائے جانے والے تمام شہاب ثاقب ٹکڑوں میں سب سے بڑا ہے۔ اس سے قبل روس اور لیبیا سمیت افریقی سرزمین پر چاند سے ٹپکنے والے ٹکڑوں کا حجم بیر کے سائز سے لے کر کرکٹ کی گیند جتنا بڑا تھا۔ لیکن موریطانیہ میں پائے جانے والے اس ٹکڑے کا کوئی جواب نہیں ہے، اسی لئے مقامی ویتنامی ارب پتی کی جانب سے اس ٹکڑے کی قیمت چھ لاکھ ساڑھے بارہ ہزار ڈالرز کیش لگائی گئی، جس پر نیلام گھر کی انتظامیہ نے اس کو فروخت کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آر آر نیلام گھر بوسٹن کے نائب صدر بوبی لانگ اسٹون نے تصدیق کی ہے کہ چاند کا یہ شاندار قیمتی ٹکڑا فروخت ہو چکا ہے لیکن اس کے خریدار اور بیچنے والوں کے نام ان کی اپنی خواہش پر سیکورٹی کے نکتہ نظر سے خفیہ رکھے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ویتنام کا تام چک پگوڈا کمپلیکس مقامی بودھوں اور غیر مقامی سیاحوں کیلئے ایک دلچسپ سیاحتی مقام ہے اور اس کی سیر کیلئے سینکڑوں مقامی اور غیر مقامی سیاح حضرات آتے ہیں اور یہیں اب ان زائرین کو چاند کا ٹکڑا دیکھنے کو ملے گا۔ چاند کے اس ٹکڑے کو خریدار کی خواہش پر ’’مون پزل‘‘ یا مقامی بودھوں کی زبان میں ’’بوا گابا‘‘ کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ اس چاند کے چٹانی ٹکڑے کے چھ حصے ہیں اور ان کو آپس میں ایک خاص ترکیب و ترتیب سے ملایا جاتا ہے تو یہ باقاعدہ چٹانی کیفیت یا ساخت اختیار کر لیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو بودھ مذہب کے ماننے والوں کی جانب سے انتہائی اہمیت دی جارہی ہے اور اس کو روحانی اعتبار سے بہت خاص قرار دیا جاتا ہے۔ مقامی بودھوں کا ماننا ہے کہ جو بودھ اس چاند کے ٹکڑے کو دیکھے گا اس کی روحانیت، ریاضت اور عبادت میں نکھار آئے گا۔ ویتنامی پگوڈا کے مذہبی عمائدین کے اس اعلان کے بعد دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے بودھ زائرین اور عقیدتمندوں نے اس چاند کے ٹکڑے کی زیارت کیلئے ویتنام جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔