اسلام آباد (رپورٹ: اویس احمد) سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے بعد سانحے کے وقت اہم ذمہ داری پر فائز بیوروکریٹس کے گرد گھیرا کئے جانے کا امکان ہے، اس حوالے سے آئندہ ماہ کے آغازمیں کچھ اہم گرفتاریاں بھی ہوسکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے دبائو پر شروع کی گئی کارروائی کے حوالے سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بیوروکریٹس سے تفتیش کے بعد سانحے کے اصل محرکات کے بارے میں اہم انکشافات سامنے آسکتے ہیں اور اہم سیاسی شخصیات کو بھی دوبارہ شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ سانحے کی ایف آئی آر میں دیگر ملزمان کے علاوہ سانحے کے وقت لاہور میں تعینات کمشنر لاہور راشد محمود لنگڑیال، ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر)محمد عثمان اور ہوم سیکریٹری میجر (ر) اعظم سلمان، موجودہ وفاقی سیکریٹری داخلہ بھی نامزد ہیں۔ ذرائع کے مطابق عوامی تحریک کی جانب سے ماڈل ٹائون سانحے کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیےحکومت پر شدید دبائوہے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے گزشتہ ماہ وزیراعظم عمران کوٹیلی فون کرکےسانحہ میں ملوث افرادکےخلاف کارروائی کی درخواست کی تھی، جس کےبعدوزیراعظم کی جانب سےسانحے میں ملوث پولیس اور انتظامیہ کے125افسران و اہلکاروں کےخلاف کارروائی کےاحکامات جاری ہوئے جن پرعمل درآمدمیں رکاوٹ بننے والےآئی جی پنجاب محمدطاہرکوعہدےسےہٹا کر نئے آئی جی امجد جاوید سلیمی سےاحکامات پرعمل درآمد کروایا گیا، جس کے بعد اب تک سانحے میں ملوث پائے جانے والے 120 پولیس افسران و اہلکار عہدوں سے ہٹا دیےگئےہیں۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہےکہ عوامی تحریک کی سانحہ ماڈل ٹائون پر نئی جے آئی ٹی کے قیام کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست اور عدالت عظمیٰ کی پنجاب حکومت سےقانونی رائے مانگنے کے بعد،وفاقی حکومت کی جانب سے پنجاب حکومت کو نئی جے آئی ٹی کے قیام کے حوالے سے ہدایات دے دی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ سانحے کی تحقیقات کے لیے ن لیگ کی صوبائی حکومت کی قائم کردہ جے آئی ٹی نے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ کو سانحہ ماڈل ٹائون میں بے گناہ قرار دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری اور وزیر اعظم کے درمیان گزشتہ ایک ماہ کے عرصے میں تین مرتبہ ٹیلی فونک رابطے ہوئے ہیں، جس کے بعد ماڈل ٹائون واقعے کے حوالے سے تیزی سے پیشرفت ہوئی ہے۔تاہم ذرائع کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری کا موقف تھا کہ وہ حکومت کے خلاف دھرنا نہیں دینا چاہتے، لیکن اگر حکومت سانحہ کے اصل مجرموں کے خلاف کارروائی میں ناکام رہی تو پارٹی کے دبائو پر انہیں یہ ناگوار کام بھی کرنا پڑے گا۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہےکہ ڈاکٹر طاہر القادری پر پارٹی کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹائون کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حوالے سے شدید دبائو ہے۔ خصوصاً سانحہ سے متاثرہ10خاندانوں میں سے2اہم خاندانوں نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر طاہر القادری اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتے، تو وہ پارٹی چھوڑ کر اپنے طور پر اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ ذرائع کے مطابق پولیس کے بعد اب بیوروکریٹس کے خلاف ممکنہ کارروائی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ کے اعلیٰ افسران سے تفتیش کے دوران ان لوگوں کے نام بھی سامنے آ سکتے ہیں جنہوں نے آپریشن کے احکامات جاری کیے تھے اور یوں مزید افراد کو شامل کرنے سے تفتیش کا رخ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو سکتا ہے۔26 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس سے قبل صوبائی حکومت نے پی اے ٹی کے مطالبے پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی پراسکیوشن ٹیم کو بھی تبدیل کردیا تھا اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل حافظ اصغر، شیخ سعید اور وقار عابد بھٹی کی جگہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالرؤف وٹو، امتیاز سپرا اور آزر سلطان کو ذمہ داری دے دی گئی تھی۔ پی اے ٹی نے سانحہ میں 139افراد کو نامزد کیا تھا، جن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف ان کے بیٹے ایم این اے حمزہ شہباز، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، ن لیگ کے سابق وفاقی وزرا جن میں خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چوہدری نثار علی خان، سابق ہوم سیکریٹری میجر (ر) اعظم سلمان، وزیر اعلیٰ کے پرسنل سیکرٹری، سابق کمشنر و ڈی سی او لاہور، اسسٹنٹ کمشنر ماڈل ٹائون، ٹی ایم او نشتر ٹائون کے علاوہ سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا اور ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار کے علاوہ 8ایس پیز، ایک اے ایس پی، 8ڈی ایس پیز، 9انسپکٹر، 13سب انسپکٹر، 21اے ایس آئیز، 4ہیڈ کانسٹیبل، اور 57کانسٹیبل شامل ہیں۔ یاد رہے 17جون 2014کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں پنجاب پولیس نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائشگاہ کے سامنے تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن کیا تھا، جس دوران عوامی تحریک کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔