اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسرز کے مقالے بھی چوری شدہ نکلے

0

محمد زبیر خان
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے بعد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے 30 پروفیسرز پر بھی چوری شدہ مقالے جمع کرانے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک بھر سے چوری شدہ مقالوں کے حوالے سے سینکڑوں شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ لیکن کسی کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ ذرائع کے بقول ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد علی نے استعفیٰ بھی دباؤ پر دیا ہے۔ جبکہ سرقہ ثابت ہونے پر نہ صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری واپس لے لی جاتی ہے بلکہ ملازمت سے بھی فارغ کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسروں کے مقالے چوری کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کے معاملات سامنے پر عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔
واضح رہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد علی پر ایک سال قبل الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کی ڈگر ی کے لئے جمع کرائے جانے والے مقالے میں سرقہ کیا ہوا مواد ڈالا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس کی باقاعدہ شکایت اصل مقالہ لکھنے والے نے یونیورسٹی سے کی تھی۔ لیکن اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ تاہم بعد میں یہ اطلاعات میڈیا میں آئیں تو ایک سال قبل اعلان کیا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 18 رکنی انکوائری کمیٹی قائم کی ہے، جو ڈاکٹر ارشد علی کو صفائی کا پورا موقع دے گی۔ تاہم ایک سال تک اس معاملے پر کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ مگر ڈاکٹر ارشد علی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ادارے کی ساکھ بچانے کیلئے مستعفی ہورہے ہیں۔
دوسری جانب ہائر ایجوکیشن کمیشن میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چوری شدہ مقالے جمع کرانے کی شکایات میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ایچ ای سی کے پاس سینکڑوں شکایات موجود ہیں، کچھ پر تو کام کیا گیا ہے اور کمیٹیاں وغیرہ قائم ہوئی ہیں، تاہم زیادہ تر شکایات پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔ ذرائع کے بقول چوری کے مقالے جمع کرانے کے الزام کا سامنا کرنے والوں میں ملک کی معروف یونیوسٹیوں کے پروفیسرز اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات شامل ہیں۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے 30 پروفیسرز کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے جو مقالے جمع کرائے ہیں، وہ چوری شدہ ہیں۔ جبکہ اسی یونیورسٹی کی جانب سے جمع کرائے گئے 102 مقالوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ مطلوبہ معیار سے کم ہیں۔ ذرائع کے مطابق سرقہ کرکے جمع کرائے گئے مقالوں کے حوالے سے شکایات بین الاقوامی طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کو موصول ہوئی ہیں۔ جبکہ اس بارے میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کی انتظامیہ بھی آگاہ ہے، لیکن تاحال نہ تو اسلامک یونیورسٹی اور نہ ہی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس پر کوئی کارروائی کی ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ڈاکٹر ارشد علی سے استعفی لیا گیا ہے، کیونکہ ایچ ای سی پر ان کے حوالے سے دباؤ بہت بڑھ گیا تھا اور انکوائری کمیٹی کے پاس ان کو بچانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ جس پر طے کیا گیا کہ اگر ڈاکٹر ارشد علی خود استعفی دے دیں تو فیصلے کو مزید طول دے دیا جائے گا اور ممکنہ طور پر اس معاملے کو اسی مقام پر ختم کردیا جائے گا، جس سے کم از کم ڈاکٹر ارشد علی کی ڈگری محفوظ رہے گی۔
ذرائع کے مطابق چوری شدہ مقالوں کے حوالے سے کم سے کم سزا یہ ہے کہ مذکورہ شخص کی ڈگری کو منسوخ کردیا جاتا ہے اور اس ڈگری کی بنیاد پر حاصل کی گئی ملازمت سے بھی فارغ کرکے ہمیشہ کیلئے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول ایچ ای سی نے ماضی میں اس طرح کی شکایات پر کارروائیاں کی ہیں۔ تاہم اب طویل عرصے سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔
ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر سید ثقلین نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں جہاں معیار تعلیم بین الاقوامی سطح کا نہیں ہے، وہیں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کرنے والے افراد بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے عاری ہیں۔ پاکستان میں یہ پریکٹس عام ہے کہ خود تحقیق کرنے کے بجائے دوسروں، بالخصوص بین الاقوامی محققین کے مقالے سرقہ کئے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چوری اس وقت پکڑی جاتی ہے جب مقالہ پیش کرنے والا اپنے تحقیقی مقالے کی بنیادوں اور اس کی تھیم سے بھی آگاہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں یہ بیماری عام ہے جبکہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں تو بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ترجمان محمد جمشید نے بتایا کہ ڈاکٹر ارشد علی کے مقالے کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، جبکہ انہوں نے استعفی رضاکارانہ طور پر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے دیگر معاملات بھی زیر تفتیش ہیں، لیکن وہ فی الحال تعداد کے حوالے سے نہیں بتا سکتے۔ ’’امت‘‘ نے ڈاکٹر ارشد علی سے فون پر رابطہ کیا۔ لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More