امت رپورٹ
صحافی جمال خشوگی کے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کے بعد سے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کیا رخ اختیار کرے گی؟ اس سلسلے میں بہت سی اطلاعات، خبریں اور افواہیں زیر گردش ہیں۔ تاہم اس دوران ہونے والی اہم پیش رفت سعودی عرب اور ایران کے درمیان پس پردہ رابطوں کا انکشاف ہے۔ معتبر سفارتی اور انٹیلی جنس ذرائع نے بتایا ہے کہ اگرچہ سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششوں کا سلسلہ بہت پہلے سے جاری تھا۔ گزشتہ برس مئی میں اسلامی فوجی اتحاد کے کمانڈر انچیف بننے والے جنرل (ر) راحیل شریف کی کوششیں بھی اس میں شامل ہیں۔ تاہم سعودی عرب کو امریکہ کی طرف سے ملنے والی تازہ دھمکیوں کے بعد اس سلسلے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ اور دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں بیک ڈور چینلز کے ذریعے رابطے کئے گئے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی فوج کی سپورٹ کے بغیر سعودی بادشاہ دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا سعودی حکمرانوں کی حفاظت کرنے والی امریکی فوج کو خرچہ دینا ہوگا۔ بعد ازاں سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل پر ٹرمپ کی جانب سے نئی دھمکی دی گئی کہ اگر اس واقعہ میں سعودی حکومت ملوث ہوئی تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔ اور ساتھ ہی سعودیہ کے ساتھ ہتھیاروں کا معاہدہ منسوخ کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہی وہ مرحلہ تھا، جب سعودی عرب نے جوابی اقدام کے طور پر ایران سے خوشگوار تعلقات کی کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور پھر اس سلسلے میں دونوں ممالک کے سفارت کاروں کے درمیان بیک ڈو رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں اب تک خاصی پیش رفت ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹرمپ کی تازہ دھمکی کو کائونٹر کرنے کے لئے سعودی حکومت نے اپنے سرکاری میڈیا کے ذریعے طے شدہ پلان کے تحت یہ خبریں چلائیں کہ اگر ٹرمپ نے اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے سعودی عرب پر کسی قسم کی پابندیاں لگائیں تو پھر جواب میں وہ تیل کی قیمتیں بڑھا دے گا۔ ایران سے اپنے تعلقات بہتر بنائے گا اور ہتھیار امریکہ کے بجائے روس سے خریدے گا۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے بالواسطہ دی گئی اس دھمکی کے بعد ہی صدر ٹرمپ کے رویہ میں نرمی آئی اور انہوں نے جمال خشوگی کے قتل کے سلسلے میں ہونے والی تحقیقات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے بیان جاری کیا کہ سعودی حکمراں اس قتل سے لاعلم تھے۔ ذرائع کے مطابق چونکہ ٹرمپ پر اپنی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے سینیٹروں کا سخت دبائو ہے، لہٰذا وہ جمال خشوگی کے قتل پر سعودی عرب کی تحقیقات کے حوالے سے کبھی نرم اور کبھی سخت بیان جاری کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اندرون خانہ وہ اس معاملے میں سعودی حکمرانوں کو رعایت دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس کا اشارہ اہم اور بااثر امریکی سینیٹر ایڈم شف نے بھی دیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان میں انٹیلی جنس کمیٹی کے رکن ایڈم شف کے بقول صدر ٹرمپ، جمال خشوگی کے قتل کے بارے میں سعودی حکومت کی لاعلمی کا موقف تسلیم کر لیں گے۔ اے بی سی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایڈم شف کا کہنا تھا کہ ’’ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ معاملہ کس سمت میں جا رہا ہے۔ بالآخر امریکی صدر، سعودی ولی عہد کی یہ بات تسلیم کر لیں گے کہ جمال خشوگی کے قتل میں سعودی حکومت ملوث نہیں۔ حالانکہ یہ ممکن نہیں کہ ولی عہد کے علم میں لائے بغیر جمال خشوگی کے قتل کے احکامات دیئے گئے ہوں‘‘۔
یاد رہے کہ جمال خشوگی کو رواں ماہ کی دو تاریخ کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ابتداء میں سعودی حکام جمال خشوگی کی گمشدگی کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ بعد ازاں تسلیم کر لیا کہ خشوگی لڑائی کے دوران قونصل خانے میں مارے گئے۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کے حوالے سے تازہ ڈویلپمنٹ بہت اہم ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت اگرکامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اسرائیل اور امریکہ کے لئے بڑی پریشانی کی بات ہو گی۔ ایران اور سعودیہ کے متوقع Nexuses کی طرف روس اور چین بھی آئیں گے۔ جبکہ ترکی کا جھکائو بھی مشرق کی طرف ہو چکا ہے۔ دوسری جانب اب یہ ممکن نہیں کہ امریکہ بزور طاقت دو حریف ملکوں کو ایک پیج پر ہونے سے روک دے یا ان میں سے کسی ایک ملک پر فزیکل حملہ کر دے۔ یہ وقت اب چلا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے شام میں براہ راست ایرانی ملیشیا پر حملہ نہ کرنے کا نیا تزویراتی منصوبہ تشکیل دیا ہے۔ جس کے تحت امریکی فوج شام میں ایرانی ملیشیا سے براہ راست لڑنے کی پالیسی سے گریز کرے گی۔ نئے منصوبے کے تحت امریکہ شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ تو جاری رکھے گا مگر ایرانی ملیشیا کو شام سے نکالنے کے لئے سفارتی اور اقتصادی دبائو کا حربہ استعمال کرے گا۔
ذرائع کے مطابق ایران اور سعودی عرب کو بیک وقت امریکی دھمکیوں نے دونوں ممالک کو قریب آنے پر مجبور کیا۔ اور معاملے کو آگے بڑھانے کے لئے خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ تیز کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ بیک ڈور رابطوں کا آغاز سعودی عرب کی طرف سے کیا گیا ہے۔ تاہم ایران اس پر پہلے سے تیار تھا۔ امریکہ اگلے ماہ نومبر میں ایران پر دوسرے مرحلے کی پابندیاں لگانے جا رہا ہے۔ جس کے تحت دنیا کو ایرانی تیل کی فروخت روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر بنانے سے متعلق تازہ پیش رفت آگے جا کر کسی اسٹیج پر رک جائے اور امریکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو پھر ورغلا کر اپنی طرف لے آئے۔ لیکن موجودہ صورت حال یہ ہے کہ دونوں کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بیک وقت بجی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک نے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت کو محسوس کیا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ اس گٹھ جوڑ کو کامیاب نہ ہونے دے۔ اور سعودی عرب سے اس کے تعلقات بوائلنگ پوائنٹ پر نہ پہنچیں۔ کیونکہ عمران خان کی طرح ٹرمپ نے بھی اپنے عوام کو لاتعداد نوکریاں دینے اور بند صنعتوں کو بحال کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ تاکہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہو سکیں۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ فی الحال کسی طور پر بھی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتے۔ جبکہ ایران کو قابو میں رکھنے کے لئے انہیں سعودی مدد کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی اپنی معیشت کی بہتری کے لئے وہ ہر حال میں سعودی عرب کے ساتھ ایک سو دس ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے ذریعے امریکہ میں ملازمت کے پانچ لاکھ مواقع پیدا ہوں گے۔ تاہم اب تک دونوں ممالک کے درمیان کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔ اور سعودی عرب مسلسل امریکہ کو لالی پاپ دے رہا ہے۔ ذرائع کے بقول سعودی عرب نے امریکہ سے دفاعی معاہدہ ختم کر کے روس سے ہتھیار خریدنے کی جو بالواسطہ دھمکی دی ہے یہ محض دھمکی نہیں بلکہ اس سلسلے میں اس نے روس سے بات چیت شروع کر رکھی ہے۔ چند ماہ پہلے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ روس اور صدر پیوٹن سے ملاقات اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ اگرچہ صدر ٹرمپ سعودی ولی عہد سے تعلقات بگاڑنے کے موڈ میں نہیں تاہم امریکی اسٹیبلشمنٹ محمد بن سلمان کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ اور وہ سابق ولی عہد محمد بن نائف کی ہمدرد ہے۔ جبکہ سی آئی اے کے سابق سربراہ اور موجودہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی اپنی اسٹیبلشمنٹ کے ہمنوا ہیں۔ذرائع کے مطابق اس سنیاریو میں یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ صدر ٹرمپ جلد یا کچھ عرصہ بعد مائیک پومپیو کو فارغ کر دیں۔ کیونکہ بہت سے معاملات پر دونوں کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جگہ ان کے بھائی خالد بن سلمان کو وقتی طور پر ولی عہد بنا دیا جائے۔ اس طرح ٹرمپ پر اپنی اسٹیبلشمنٹ اور مخالف سینیٹروں کی جانب سے آنے والا دبائو بھی کم ہو جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اگر چہ سعودی وزیر توانائی خالد الفالح نے کہا ہے کہ سعودی عرب 1973ء کی طرح مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم اندرون خانہ سعودی حکومت یہ طے کر چکی ہے کہ امریکی پابندیوں کے جواب میں تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ جس کے تحت مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی تو بند نہیں کی جائے گی تاہم تیل کی قیمتوں میں حد درجہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس خدشے کا اظہار معروف عالمی ماہر معیشت لائم ہیلی گین نے بھی کیا ہے۔ سنڈے ٹیلی گراف سے بات چیت کرتے ہوئے ہیلی گین کا کہنا تھا کہ کسی بھی امریکی پابندی کے جواب میں سعودی عرب تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں 80 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہونے والے تیل کی قیمت 100 ڈالر یا 200 ڈالر فی بیرل، حتیٰ کہ اس سے بھی دگنی ہو سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمی کساد بازاری کا خطرہ ہے۔
ادھر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تازہ سنیاریو میں اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو مسلم دنیا کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کیونکہ اس نظریاتی جنگ نے مسلم دنیا کو شیعہ اور سنی کے دو کیمپوںمیں تقسیم کر رکھا ہے جسے سب اپنے مقاصد کے لئے ایکسپلائٹ کر رہے ہیں۔ اگر دونوں ممالک ایک ہوتے ہیں تو ان کے درمیان جاری پراکسی وار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں فرقہ ورانہ تنظیموں کی فنڈنگ رک جائے گی۔ اور ایک طویل عرصے سے جاری قتل و غارت کا باب بند ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭