مشترکہ مشقوں کیلئے70روسی فوجی پاکستان پہنچ گئے

0

راولپنڈی(امت نیوز) پاک روس مشترکہ فوجی مشق ’’دروزوبہ ۔تھری‘‘ میں شرکت کے لئے روسی فوج کا دستہ پاکستان پہنچ گیا ہے۔آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کے مطابق دروزبہ ۔3 کے نام سے منعقدہونے والی مشترکہ مشقیں اسلام آباد اور ماسکو کے باہمی تربیتی تعاون کا حصہ ہیں۔دروزبہ کا مطلب دوستی ہے۔ دونوں ممالک مسلسل3 سال سے مشترکہ جنگی مشقیں کر رہے ہیں۔ روسی فوجی 2016 میں بھی پاکستان آئے تھے ،جب کہ 2017 میں دونوں ممالک کے فوجی روس میں اکٹھے ہوئے ،جہاں شمالی قفقاز کے علاقے میں سطح سمندرسے 23 ہزار فٹ بلند مقام پرمنعقدہ مشقوں میں انسداد دہشت گردی،یرغمالیوں کی رہائی، محاصرہ، امدادی اور سرچ آپریشن کی کاررروائیاں کی گئیں۔اس بار سطح سمندرسے 1400میٹر بلندی پر جنگی مہارت کی آزمائش کی جائے گی۔روس کی وزارتِ دفاع کے مطابق 4 نومبر تک جاری رہنے والی "فرینڈ شپ 2018” نامی مشقوں میں دونوں ملکوں کے 200 فوجی اہلکار حصہ لیں گے ،جن میں روسی فوجیوں کی تعداد 70 ہے۔ خیبر پختون کے علاقے چراٹ میں واقع پاکستان کی اسپیشل فورسز کے مرکز اور پنجاب کے شہر کھاریاں کے قریب پبی میں انسدادِ دہشت گردی کے قومی مرکز میں ہونے والی ان مشقوں میں دونوں ملکوں کے فوجی دستے پہاڑی علاقوں میں انسدادِ دہشت گردی اور مسلح گروہوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیواں سے متعلق اپنے اپنے تجربات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کریں گے۔بیان میں مزید کیا گیا ہے کہ ان مشترکہ مشقوں کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون کو فروغ دے کر اسے مزید مضبوط بنانا ہے۔واضح رہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی شعبوں میں تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔رواں سال اگست میں پاکستان اور روس کی مشترکہ عسکری مشاورتی کمیٹی کے اسلام آباد میں ہونے والے افتتاحی اجلاس کے موقع پر دونوں ملکوں نے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے تھے ،جس کے تحت پاکستانی فوج کے اہلکار اب روس کے عسکری اداروں میں تربیت حاصل کر سکیں گے۔دفاعی امور کے تجزیہ کار امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس خطے میں شدت پسند تنظیم داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لیے خطے کے ملکوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمتِ عملی وضع کرنے کے کوشش کر رہا ہے اور یہ مشقیں اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔دونوں ممالک کا افغانستان کے معاملے پر مؤقف بھی یکساں ہیں۔ماسکو بھی مسئلہ مذاکرات سے حل کرنے کا خواہشمند ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More