12ارب ہڑپ کرنے والے فلورمل مالکان کارروائی سے محفوظ
کراچی (رپورٹ:ارشاد کھوکھر) ادھار پر گندم لے کر تقریباً 12ارب روپے ہڑپ کرنیوالے فلور ملزمالکان کے خلاف محکمہ خوراک کی انتظامیہ کی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ ملی بھگت میں شامل ہونے کے باعث محکمہ خوراک کے متعلقہ افسران ادھار پر دی گئی گندم کی گارنٹی کی مد میں محکمے کے پاس جمع کرائے گئے بینک اکاؤنٹ کے چیک بینکوں میں جمع نہیں کرارہے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی محکمہ خوراک کی انتظامیہ نے اپریل 2018 سے شروع ہونے والی گندم کی سیزن کے دوران زیادہ گندم خرید کر کے باردانے پر کمیشن کی مد میں زیادہ رقم بٹورنے کے لیے حکومت سندھ جو سفارش کی تھی سرکاری نرخوں کے مقابلہ میں اوپن مارکیٹ میں گندم نرخوں میں زیادہ فرق نہ ہونے کے باعث فلور ملز مالکان محکمہ خوراک کی زیادہ گندم نہیں اٹھا رہے ہیں ۔ اس لئے نئی گندم خریدنے سے قبل گندم کے پرانے ذخائر نکالنے کے لئے فلور ملوں کو 6 ماہ کے ادھار پر گندم دینے کی اجازت دی جائے۔ذرائع نے بتایا کہ اس ضمن میں حکومت سندھ نے محکمہ خوراک کو بینک گارنٹی کے عیوض متعلقہ فلور ملوں کو ادھارپر گندم دینے کی اجازت دے دی تھی ،تاہم بعدازاں محکمہ خوراک کے افسران نے بینک گارنٹی کے ساتھ کئی فلور ملوں سے صرف لی گئی گندم کی رقم کا چھ ماہ آگے کی تاریخوں میں چیک لے کر اس پر بھی انہیں گندم جاری کردی ۔ ذرائع کا کہناہے کہ گزشتہ سیزن کے دوران محکمہ خوراک کی فی 100کلو گرام گندم کی بوری کی قیمت اجرا 3250 روپے تھی ۔ اس ضمن میں پہلے 3لاکھ پھر 5لاکھ ٹن کی اجازت لی گئی اور اس کے بعد 20 ارب روپے سے زائد مالیت کی تقریباً سوا 6 لاکھ ٹن بعض تقریباً 62 لاکھ بوری گندم 6لاکھ کے ادھار پر دی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ فلور ملوں کو یہ سہولت دی گئی تھی کہ جس تاریخ سے وہ سرکاری گوداموں سے گندم اٹھائیں گے ۔اس تاریخ سے ان کے 6ماہ کی مدت شروع ہوگی ۔ ذرائع کا اس حوالے سے مختلف فلور ملزمالکان کی 6ماہ کی مدت الگ الگ تاریخوں میں ہے تاہم سب سے آخر میں جنہوں نے گندم اٹھائی ان کی رقم کی واپس کی تاریخ 15اکتوبر 2018تک تھی ،تاہم اب تک 20ارب روپے میں سے محکمہ خوراک کو صرف 8 ارب روپے تک وصولی بھی ہوچکی ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ سب سے زیادہ ادھار پر گندم سکھر ریجن کے اضلاع گھوٹکی ، سکھر وغیرہ کی فلور ملوں کو دی گئی ہے اور اب انہیں اضلاع کے فلور ملز مالکان رقم واپس کرنے سے قاصر ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ محکمہ فوڈز کی کمیشن اور خورد برد مافیا ملی بھگت کے ساتھ مذکورہ اضلاع سمیت دیگر اضلاع میں پہلے اربوں روپے مالیت کی گندم خورد برد کرکے کھا پی گئی تھی۔بعدازاں اس خورد برد کو چھپانے کے لئے خوردبرد سندھ گندم ریکارڈ میں ادھار پر دینے کا ظاہر کرکے عارضی طوپر اپنے آپ کو بچالیا ۔لیکن 15 اکتوبر گزرجانے کے باوجود بھی رقم کی واپسی نہ ہونے سے معاملہ پھر سے سامنے آیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ متعلقہ فلور ملوں کے مالکان نے ادھار پر لی گئی گندم کی گارنٹی کی مد میں محکمہ خوراک کے افسران کو 6 ماہ آگے کی تاریخوں میں چیک دئیے تھے ۔ متعلقہ افسران وہ چیک کیش کرانے کے لئے متعلقہ بینکوں سے رجو ع نہیں کررہے ہیں ،جس کی سبب یہ ہے کہ ادھار پر دی گئی گندم پر محکمہ خوراک افسران و عملے نے بھی کیش بٹورا ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں متعلقہ بینکوں میں چیک جمع کرائے جائیں گے تو وہ باؤنس ہوجائیں گے اور اس سے فراڈ واضح ہوجائے گا اور اس سے کے بعد متعلقہ فلورملوں کے مالکان کے خلاف کرمنل کارروائی کے تحت مقدمات درج ہوجائیں گے ۔ اس ضمن میں مؤقف جاننے کے لئے رابطہ کرنے پر صوبائی محکمہ خوراک کے سیکریٹری محمد راشد نے ”امت“ سے چیت کرتے ہوئے کہاکہ اور 17اکتوبر کو محکمہ کے سیکریٹری کا چارج سنبھالا ہے اور انتظامی امور کے سلسلے میں اب بھی اسلام آباد میں ہیں ۔اس حوالے سے وہ اپنے ماتحت افسران سے بریفنگ لینے کے بعد کچھ کہہ سکتے ہیں۔