امت رپورٹ
ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے لنڈا کی چیزوں کے بھی دام بڑھ گئے ہیں۔ پرانے سوئٹرز، کوٹ، جیکٹس، کمبل اور جوتوں سمیت دیگر اشیا 50 فیصد مہنگی فروخت کی جارہی ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ رواں برس کراچی میں سیزن صرف 2 ماہ پر محیط ہوگا۔ لنڈا بازار کے تاجر رہنما حکیم شاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ لنڈا بازار میں 80 فیصد نئی اشیا اور 20 فیصد استعمال شدہ جوتے، گرم کپڑے، کمبل اور دیگر اشیا کا کاروبار ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں لنڈے کے کپڑے اور دیگر اشیا پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔ تاہم پاکستان میں لنڈے کے تاجر بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے اشیا مہنگی اور منافع کم ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پرانے کپڑے، جوتے اور دیگر اشیا زیادہ تر بچت بازاروں یا بڑے بازاروں میں ٹھیلوں اور پتھاروں پر فروخت ہورہی ہیں۔ لائٹ ہائوس میں لنڈے کے تاجر اب دوسرے کاروبار کرنے لگے ہیں۔ چائنا نے لنڈے کا کام زیادہ متاثر کیا ہے، کیونکہ وہ مصنوعی چمڑے سے نئے جوتے اور جیکٹس بنا رہا ہے، جن کی قیمت کم ہے، اس لئے شہری پرانے کی جگہ نئی اشیا خرید لیتے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں لائٹ ہائوس لنڈے کی مرکزی مارکیٹ ہے۔ لنڈے کے کاروبار سے وابستہ تاجر سال بھر گرم کپڑوں کے کنٹینرز منگوا کر اولڈ حاجی کیمپ، شیر شاہ اور دیگر جگہوں پر واقع گوداموں میں جمع کرتے ہیں اور ستمبر کے آخر میں ملک کے سرد علاقوں گلگت، اسکردو، بلتستان سمیت دیگر شہروں میں مال بھیجنا شروع کردیتے ہیں۔ کراچی میں لنڈا کے گرم کپڑوں کا سیزن اکتوبر کے آغاز سے دسمبر کے آخر تک ہوتا ہے۔ لنڈے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ کاروبار چند سال قبل تک اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ سیزن کے دوران گلی کوچوں، بازاروں، مارکیٹوں، بچت بازاروں اور چوراہوں کے قریب لنڈے کے کپڑوں کے ٹھیلے پتھارے نظر آتے تھے اور غریب طبقے کے لوگ سستے داموں گرم کپڑے چھانٹی کرکے خریدتے تھے۔ جبکہ لائٹ ہاؤس کی مرکزی مارکیٹ میں پوش علاقوں کے لوگ کوٹ، پینٹ، کمبل اور دیگر گرم ملبوسات کی خریداری کیلئے جاتے تھے۔ لیکن 10 سال قبل اس کاروبار میں جب منافع خور تاجر کود پڑے تو ان تاجروں کے ایجنٹ دبئی اور دیگر ملکوں کی مارکیٹوں میں جانے لگے، جہاں امریکہ، ہالینڈ، جاپان، برطانیہ اور جرمنی سیمت دیگر ممالک سے لنڈا کا مال آتا ہے۔ یہ ایجنٹ وہاں سے براہ راست ڈیلنگ کرکے مال لاتے ہیں اور یہاں مقامی ڈیلرز کو مہنگا فروخت کرتے ہیں۔ چھوٹے تاجروں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس کاروبار پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ تاہم کراچی پورٹ پر آنے والے لنڈے کے کنٹینرز پر بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ لنڈا کی اشیا مہنگی ہونے کی وجہ سے غریب طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔
’’امت‘‘ کے سروے کے دوران لائٹ ہائوس کی مرکزی مارکیٹ میں پرانے کمبل، کوٹ پینٹ، جکیٹس، اسپورٹس سوٹ اور پرانی مچھر دانیوں سمیت دیگر اشیا فروخت کرنے والے تاجروں مایوس نظر آئے۔ لنڈا بازار کے تاجروں کی ایسوسی ایشن کے صدر حکیم شاہ نے بتایا کہ لائٹ ہاؤس مارکیٹ اب برائے نام لنڈا کی مارکیٹ رہ گئی ہے۔ یہاں بیشتر دکانوں پر نئے کمبل، نئے پینٹ کوٹ، جوتے اور دیگر اشیا فروخت کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کاروبار ختم ہوتا جارہا ہے۔ سوائے پاکستان کے دنیا بھر میں لنڈے کی اشیا پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ اب ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سیزن میں کراچی کے شہریوں کو گزشتہ سال کے مقابلے میں 50 فیصد مہنگی اشیا ملیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی پورٹ پر آنے والے کنٹینرز کا مال دبئی اور دیگر ملکوں میں پہلے چیک ہوتا ہے اور سی گریڈ والا کم معیار کا مال ادھر آتا ہے۔ جبکہ پورٹ قاسم پر آنے والا مال اِدھر ہی چھانٹی ہوتا ہے۔ اے اور بی کیٹیگری والا مال دوبارہ امریکہ اور برطانیہ بھیج دیا جاتا ہے جبکہ سی گریڈ کا مال کراچی سمیت اندرون ملک سپلائی کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چائنا کی سستی چیزوں نے لنڈے کے کاروبار کو بہت متاثر کیا ہے۔ لنڈا کی چمڑے کی جیکٹس، جوتے اور دیگر اشیا مہنگی ہوچکی ہیں جبکہ چائنا کی مصنوعی چمڑے کی جیکٹس، جوتے اور دیگر اشیا سستی مل جاتی ہیں۔ کام مندا ہونے کی وجہ سے اب کراچی میں لنڈے کے تاجر دیگر کاروبار کرنے لگے ہیں۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق اب لنڈے کا کاروبار گرم کپڑوں اور جوتوں تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ پرانے برتن، جیولری، شوپیس، کھلونے، الیکٹرونکس آئٹمز اور دیگر سامان بھی بڑی تعداد میں آتا ہے، جو تاجر منہ مانگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ تاجروں کے بقول پہلے ماہانہ 3 ہزار کنٹینر کراچی آتے تھے، اب ایک ہزار سے بھی کم آتے ہیں۔ کراچی میں پہلے پرانے سوئٹرز کھڈی کی گھریلو صنعت سے وابسہ افراد خریدتے تھے، جن سے اون نکال کر گرم کھیس تیار کئے جاتے تھے۔ لیکن بجلی کے بحران اور بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے یہ صنعت بھی بیٹھ گئی ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post