اسلام آباد(نمائندہ امت) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منعقدہواجس میں اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ حکام نے بریفنگ دی،سٹیٹ بینک کے حکام نے بتایا کہ روپے کی قدر میں تیزی کے ساتھ ہونے والی حالیہ کمی سے ملکی معیشت کو نئی زندگی ملی جو اس بات سے ظاہر ہے کہ مالی سال 2018-19ء کی پہلی سہ ماہی میں غیر ملکی ترسیلات میں13 فیصد اضافہ ہوا، تجارتی خسارہ 1.6 فیصد تک کم ہوا اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ 2.6 فیصد تک کم ہوا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ افراط زر میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اس پر قابو پانے کے سلسلے میں سٹیٹ بینک مانیٹری پالیسی کا بھی اثر نو جائزہ لے رہا ہے۔اس موقع پر پوچھے گئے ایک سوال پر سٹیٹ بینک کے حکام نے بتایا کہ مانیٹری پالیسی 10 ممبران پر مشتمل کمیٹی متعین کر رہی ہے اور اس حوالے سے پالیسی فیصلوں میں حکومت کی کوئی مداخلت نہیں۔ کمیٹی کے ارکان کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات پر سٹیٹ بینک کے نمائندے نے کہا کہ بینکوں کی جانب سے اکائونٹس، کریڈٹ کارڈز یا دیگر سروسز کیلئے صارفین کی درخواست کو قانونی توجیح کے بغیر مسترد نہیں کیا جانا چاہئے۔ علاوہ ازیں سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ 5 ماہ پہلے انہوں نے اپنی صاحبزادی کابینک اکاؤنٹ کھلوانے کیلئے درخواست دی مگر ابھی تک اکاؤنٹ نہیں کھولا گیا بے شمار چیزوں کی تصدیق بھی کروا چکے ہیں میرے تمام اثاثوں کا ریکارڈ بھی ایف بی آر کے پاس موجود ہے ۔1993 سے ٹیکس ادا کر رہا ہوں ہماری بنک ٹرانزیکشن تک روک لی جاتی ہے ۔یہ غیر امتیازی سلوک پارلیمنٹرین کے ساتھ ساتھ وکلاء برادری کے ساتھ بھی روا رکھا جا رہا ہے۔کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ بینک اکائونٹ کھلوانا ہر شہری کا حق ہے۔ سٹیٹ بینک کے گورنر، پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور بینکنگ محتسب کو آئندہ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان کی جانب سے پیش کئے گئے تحفظات کا جواب دینے کیلئے حاضر ہونا چاہئے۔ اس موقع پر قائمہ کمیٹی نے سٹیٹ بینک کو ہدایت کی کہ صحافیوں، وکیلوں یا سیاستدانوں سمیت کسی بھی طبقے یا پیشے سے وابستہ افراد کے خلاف امتیاز ختم کرنے کیلئے نظام میں موجود رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں سینیٹرز عائشہ رضا فاروق، مصدق ملک، محسن عزیز، محمد اکرم، محمد علی خان اور فدا محمد کے علاوہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو جہانزیب خان، وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام نے شرکت کی۔