زرداری سمیت کئی رہنمائوں پر سیاسی منظر سے ہٹنے کا دبائو

0

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) دیکھا جائے تو اس وقت سب سے زیادہ مشکل میں زرداری ہیں۔ ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر۔ ایک طرف غیبی طاقتوں کا بڑھتا ہوا دباوٴ ہے، جس کی سہار نہیں ہو پارہی۔ دوسری طرف نواز لیگ کے دلفریب اشارے ہیں، جن کے اختتام پر بے یقینی کے سیاہ بادل تلے کھڑے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ غیبی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے زرداری نے اس سے کہیں زیادہ سجدہ سہو کر لیے، جتنی ان کی طاقت تھی۔ مگر گلوخلاصی ہے کہ ہو نہیں پارہی۔ نواز لیگ کے خلاف سخت ترین جارحانہ رویے کے جواب میں انہیں صرف سانس لینے کی جگہ ملی ہے۔ مگر چاروں طرف سے اندیشوں کا دباوٴ ہے کہ بڑھتا جارہا ہے اور دباوٴ کیا ہے۔ دباوٴ یہ ہے کہ ان سے صاف اور سیدھی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی کمان اپنے صاحبزادے کے حوالے کردیں اور خود سیاست سے ریٹائرمنٹ لے کر دور کہیں جا بسیں اور ان کے ہمراہ ان کی ہمشیرہ محترمہ بھی ہوں، تاکہ صوبائی سیاست اور پارٹی میں ان کے اثرانداز ہونے کی صلاحیت کم ترین درجے تک پہنچ جائے۔ اچھا۔ اس ضمن میں تنہا وہ نہیں، جن سے یہ توقع کی جا رہی ہے۔ درجنوں دیگر سیاستدان بھی ریڈار پر ہیں۔ ان میں دونوں بڑی جماعتوں کے کئی رہنما بھی شامل ہیں۔ یوں سمجھیں کہ پاکستانی سیاست میں دوسرا خاموش ایبڈو اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ اس ایبڈو کا پہلا شکار الطاف حسین اور ان کے حواری تھے، جو برطانیہ، جنوبی افریقہ اور دبئی میں بیٹھ کر ڈوریں ہلاتے تھے۔ ان میں لندن اور دبئی کو تو غیر موٴثر کر دیا گیا ہے۔ تاہم جنوبی افریقہ ابھی تک سرخ بتی جلائے بیٹھا ہے۔ غیبی طاقتوں کی توجہ اب اس جانب ہے۔ کیونکہ یہاں الطاف کے اشارے کے منتظر کئی سلیپنگ سیلز پہرے جمائے بیٹھے ہیں۔ الطاف کے بعد اگلا نشانہ نواز شریف اور ان کا خاندان بنا ہے۔ جو کردہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔ چار، پانچ برس اس باولی میں بند گزار دیئے تو قومی سیاست سے نواز شریف کا رول تسلی بخش طور پر کم ہو جائے گا۔ بشرطیکہ۔ اور یہ بشرطیکہ بہت اہم ہے۔ عمران حکومت کارکردگی کے بلند ترین معیار کو حاصل کر کے قومی معیشت کو مستحکم کر دے اور عوام پر ٹوٹنے والی پے در پے قیامتیں نازل ہونے کے دروازے بند کر دے، لیکن فی الحال تو ایسا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ الٹا حکومت کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ سو دن کا پہاڑ سر ہونا تو دور کی بات ہے۔ ابھی سے حالت یہ ہے کہ صفیں کج، دل پریشان اور سجدے بے ذوق ہو چکے ہیں۔ سمندر کو پانی کی بوند میں بند کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے عوام کو ایک بوند پانی کے لیے ابھی سے ترسا دیا ہے۔ ہر طرف سے چار چوٹ کی مار پڑ رہی ہے۔ کھاوٴں کدھر کی چوٹ بچاوٴں کدھر کی چوٹ؟ عوام ہیں کہ سر بچاتے ہیں تو دھڑ پیٹتا ہے۔ دھڑ بچاتے ہیں تو تلوے زخمی ہوتے ہیں۔ ایسے میں اس حکومت کا سب سے ڈراوٴنا خواب یہ ہوگا کہ زرداری متحدہ اپوزیشن کی بنیاد ڈال کر تحریک عدم اعتماد کا پتہ پھینک دیں۔ اور شاید وہ اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔ یوں کہیں کہ قوم کو اک ممکنہ اور الیکشن کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت کا ناطقہ بند کردیا گیا تو۔ یوں کہیں کہ زرداری نے خود پر بڑھتے ناقابل برداشت دباوٴ کو کاوٴنٹر کرنے کے لیے نرمی اور خوشامد کا راستہ چھوڑ کر مزاحمت کا عندیہ دینا شروع کر دیا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس حکومت کی سانس ایک درجن ووٹ کی تھیلی میں بند ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ اپوزیشن منتشر ہے، اگر اکٹھی ہو جائے تو حکومت کو دانتوں تلے پسینہ آجائے گا۔ پھر رعونت کی عفونت سے ناک تک بھرے کئی وزرا کی گھگھیاں بندھ جائیں گی اور وہ مخالف جماعتوں سے خفیہ رابطے شروع کر دیں گے۔ یہ تو طے ہے کہ فی الحال آصف زرداری کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، لیکن ان کے چاروں طرف گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ البتہ ان کی ہمشیرہ، یوں سمجھیں کہ خطرے کی سرخ لکیر کے پار کھڑی ہیں۔ ان کے بارے میں تواتر سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ انہیں شاید نیب یا کوئی دوسرا سرکاری ادارہ تفتیش کے لیے حراست میں لے لے۔ ایسا ہوا تو شاید وہ دن نواز لیگ کے اچھے دنوں کا پہلا دن ہوگا، کیونکہ اس کے بعد زرداری کے پاس پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے وہ مطلوبہ مقاصد حاصل کر پائیں یا نہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ حکومت کی مشکلات کئی گنا بڑھا دیں گے۔ ادھر حکومت کو اپنے سو دن کے پروگرام پر سوچنے کی مہلت بھی نہیں ملی۔ حلف اٹھاتے ہی یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ6 ارب ڈالر قرضے کی قسط دینی ہے اور 6 ارب ڈالر حکومت چلانے کے لیے درکار ہیں۔ اس انکشاف نے حکومت کے ہاتھ پاوٴں پھلا دیئے اور وہ اندھا دھند بیانات دینے لگی۔ خوف، سراسیمگی اور پریشانی نے وزیراعظم سے لے کر پارٹی کے چوڑے چمار تک سب کے اوسان خطا کر دیئے۔ پھر ساری حکومت نے خوفناک معاشی حالات کا ڈھول بجانا شروع کر دیا۔ بغیر یہ سوچے کہ وزیراعظم سے لے کر وزیر خزانہ تک ہر آدمی خراب ملکی معیشت کا رونا روئے گا تو بیرونی سرمایہ کار تو درکنار مقامی سرمایہ کار بھی ہاتھ کھینچ لے گا۔ ظاہر ہے، جب حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیدار یہ کہیں کہ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے، دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف کے علاوہ چارہ نہیں۔قوم کو سخت دن دیکھنے ہوں گے۔ معیشت کوما میں ہے تو غیر ملکی سرمایہ کار تو پاکستان کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھیں گے۔ ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کار بھی پیسہ سمیٹ کر خاموش بیٹھ جائیں گے۔ شاید اسی لیے پچھلے 3 ماہ میں جس تیزی سے پاکستانی سرمایہ باہر گیا ہے۔ اس کی مثال گزشتہ30 سال میں نہیں ملتی۔ معاشی ماہرین کے مطابق یہ رقم کم سے کم6 ارب ڈالر ہے، جبکہ نگران حکومت کا عرصہ بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ رقم دگنی ہو جاتی ہے۔ یعنی 12 ارب ڈالر۔ عین اتنی ہی رقم جتنی آپ کو درکار ہے۔ اس سارے فساد پر مستزاد وزیراعظم اور ان کے موالی وزرا کے وہ بیانات ہیں، جن میں وہ سرمایہ چھپانے والوں کو لرزہ خیز قسم کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان کی شہ پر ایف، بی، آر نے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں، جن میں پرچون دکاندار سے لے کر ڈینٹر، پینٹر سب شامل ہیں۔ ان نوٹسوں کے جواب میں آنے والی فائلوں کو پڑھے گا کون اور پرکھے گا کون؟ اس باب میں خود ایف بی آر کے ذرائع خاموشی سے کندھے اچکا دیتے ہیں۔ ظاہر ہے، جسے نوٹس ملے گا وہ کسی وکیل کو پکڑے گا۔ جو لمبا چوڑا جواب بنا کر سرکار میں داخل کرے گا۔ پھر اس جواب کی چھان پھٹک ہوگی۔ سچ جھوٹ کو الگ کیا جائے گا اور انکم ٹیکس اور جرمانہ لگایا جائے گا، لیکن لاکھوں فائلوں کی چھان پھٹک کرنے کے لیے ایف بی آر اور انکم ٹیکس کے پاس عملہ اور وقت ہے؟ فی الحال تو جو عملہ ہے، اسے تو پرانے کیسوں سے ہی فرصت نہیں؟ ان میں بھی ہر آدمی فائل کا تجزیہ کرنے کا ماہر نہیں ہے۔ انکم ٹیکس کے بمشکل 10 فیصد افسران اتنی پیشہ ورانہ مہارت اور قابلیت رکھتے ہیں۔ انہی کو سارے اہم کیسز دیئے جاتے ہیں۔ باقی تو بس اللہ لوک ہیں۔ نتیجہ کیا ہوگا؟۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ زبردست توڑ ہوگی۔ لے دے کے معاملات سیدھے کئے جائیں گے اور حکومت کے بجائے ایف بی آر عملے کی چاندی ہو جائے گی۔ دوسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ ڈر کے مارے سرمایہ کاری چھوڑ دیں گے۔ جو وہ چھوڑ چکے ہیں۔ اب مارکیٹ سے خریدار غائب ہیں اور مال بیچنے والے پریشان ہیں۔ ملک بھر کی معاشی سرگرمیوں کا پہیہ جام ہو رہا ہے۔ گردشی سرمایہ رک گیا ہے۔ بڑے کو تو چھوڑیئے، درمیانے اور چھوٹے درجے کا سرمایہ کار بھی دم سادھ کر بیٹھ گیا ہے کہ انتظار کرو اور تیل کی دھار۔ پھر فیصلہ کرو کہ کیا کرنا ہے۔ مثلاً پراپرٹی کے شعبے کو لیجئے۔ اس ایک صنعت سے 66 چھوٹی بڑی صنعتیں وابستہ ہیں۔ پکڑ دھکڑ اور ڈراوٴ دھمکاوٴ کے باعث یہ صنعت بیٹھ چکی ہے۔ ہر بڑے بلڈر کے دن کا آدھا حصہ نیب، ایف آئی اے، جے آئی ٹی یا کسی نہ کسی ادارے کے افسر کے پاس حاضری لگانے میں گزرتا ہے۔ باقی دن وہ اگلے دن کی تیاری کرتا ہے۔ مثلاً بے نامی اکاؤنٹس والے معاملے میں کراچی کے ہر بڑے بلڈر کو جے آئی ٹی دفاتر کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں۔ ہر بڑے کاروباری سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کا چیک فلاں بے نامی اکاؤنٹ میں جمع ہوا تھا۔ وضاحت کریں کس کو دیا تھا؟ اب کاروبار کرنے والے دن میں درجنوں چیک جاری کرتے ہیں۔ ان میں کراس چیک بھی ہوتے ہیں۔ نامی بھی اور کیش کے چیک بھی۔ کون سا چیک کونسی پارٹی کہاں بڑھا دیتی ہے؟ اس کا اندازہ تو کسی کو بھی نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ نے سیمنٹ ڈیلر کو ایک کروڑ کا کیش چیک دیا۔ اس نے وہی چیک آگے کسی پارٹی کو دے دیا۔ تیسری نے چوتھی کو بڑھا دیا۔ جس نے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیا۔ اب اگر چوتھی پارٹی قانون کو مطلوب ہے تو اس میں مذکورہ بلڈر کا کیا قصور؟ چلیں رفع شر کی خاطر مان لیتے ہیں کہ یہ سارے بے نامی اکاؤنٹ آصف زرداری کے تھے اور ہر کاروباری شخص نے انہیں
رشوت میں چیک دیئے۔ جو انہوں نے بے نامی اکاؤنٹ میں جمع کرا دیئے۔ مان لیتے ہیں کہ یہ دعویٰ درست ہے۔ لیکن کیا تفتیش کرنے والے اور تفتیش کرانے والے دونوں یہ بات نہیں جانتے کہ کراچی میں کاروبار کرنے کے لیے2 درگاہوں پر ماتھا ٹیکنا اور پرشاد چڑھانا لازمی تھا۔ ورنہ کاروبار تو کیا۔ جان کے لالے بھی پڑ جاتے۔ ایک درگاہ آصف زرداری کی تھی اور دوسری الطاف حسین کی اور ان دونوں کو غیبی طاقتوں کی پوری آشیرباد حاصل تھی۔ انہی کی دوستی یا نوکری کے زور پر یہ حضرات صوبے کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے تھے۔ حکومت، پارلیمنٹ ان کی لونڈی تھیں اور عدالتیں ان کی جیب میں تھیں۔ اب اگر ان دونوں پر برائی آئی ہے تو انہیں تحفظ دینے والے، بنانے والے، ان سے کام لینے والے، انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے اور اس استعمال کے عوض عوام کی جان و مال سے کھیلنے کی چھوٹ دینے والے کیوں محفوظ ہیں؟۔ ان کی جے آئی ٹی کیوں نہیں ہوتی؟۔ ان پر خصوصی عدالتوں میں مقدمے کیوں نہیں چلتے؟۔ قومی سلامتی کو لاحق خطرات بڑھانے میں ان کا بھی تو اتنا ہی حصہ ہے۔ جتنا الطاف اور زرداری اور ان کے ماتحتوں کا۔ آج کاروباری آدمی دونوں طرف سے پس رہا ہے۔ پہلے مقتدر طاقتوں کی سرپرستی میں کام کرنے والے الطاف اور زرداری کے ہاتھوں پٹتا تھا اور اب سرکاری اداروں کے ہاتھوں، کہ تو نے انہیں پیسے کیوں دیئے۔ بھئی واہ۔ چت بھی میری۔ پٹ بھی میری اور انٹا میرے باپ کا۔ میرے بھائی۔ کاروبار اور کاروباری دونوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا ہے۔ ان کی تو بس ہے، لیکن حکومت آنکھوں پر پٹی باندھے بغیر دیکھے صرف اندھے ٹرک کی گھوں گھوں کے پیچھے چل رہی ہے اور دعویٰ کررہی ہے کہ خوش حالی کے دریا بہا دے گی۔ ایک اور معاملہ نان فائلر کا ہے۔ کاروباری سرگرمیوں میں آنے والے سرمائے کا 70 فیصد حصہ نان فائلر کا تھا۔ یعنی اس کا جو انکم ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کراتا، لیکن باقی ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اربوں روپے حکومت کو ادا کرتا ہے۔ حکومت نے نان فائلر پر پابندی لگا دی کہ وہ سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ جس کے نتیجے میں مارکیٹ پر بہت برا اثر پڑا اور سرمایہ غائب ہو گیا۔ اب بجائے اس کے کہ حکومت اس سرمائے کو راستہ دیتی۔ اسے کچھ سادہ سے قانونی راستے مہیا کرتی، تاکہ معاشی سرگرمیاں چلتی رہتیں۔ اس نے بالکل ہی روڈ بلاک لگا دیا، حالانکہ ایک حالیہ تجربے نے راستہ دینے کی افادیت ثابت کر دی تھی۔ مثلاً خاقان حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی دی تو اس سے نان فائلر کو فائدہ ہوا اور وہ ٹیکس نیٹ میں آگیا، مگر حکومت بدلی تو عزائم بھی بدل گئے۔ نان فائلر کو سہولت دینے کے بجائے گرفت کی تیاری ہونے لگی۔ ڈیٹا جمع ہونے لگا۔ نوٹس جاری ہونے لگے تو ایک اچھی بھلی اسکیم کا ستیاناس ہو گیا۔ پرانے قارئین کو یاد ہو گا کہ ضیاالحق دور کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے نان فائلر اور بلیک منی کو وائٹ بنانے والوں کے لیے فارن ایکسچینج بیرر سرٹیفکیٹ جاری کئے تھے، جو اس وقت سے آج تک کی سب سے کامیاب سرکاری اسکیم سمجھی جاتی ہے۔ حکومت نے اس کی مدد سے اربوں ڈالر جمع کر لیے تھے۔ یہ اسکیم آج بھی موٴثر ہے۔ وجہ کیا ہے؟، وجہ یہ ہے کہ اسکیم میں سرٹیفکیٹ خریدنے والوں سے کچھ پوچھا نہیں جاتا تھا۔ وہ بانڈز کی طرح خریدے اور بیچے جاتے تھے۔ لیکن صرف ڈالر میں۔ چنانچہ ایک جھٹکے میں حکومت کے خزانے میں اربوں ڈالر آگئے۔ آج آپ کو ڈالر درکار ہیں تو ایسی اسکیمیں متعارف کرائیں، جن میں خریدار کے لیے کشش ہو۔ بیرون ملک پاکستانی بھی ایسی کسی اسکیم سے فائدہ اٹھائیں گے اور اندرون ملک پاکستانی بھی۔ اس میں فائلر نان فائلر کی تخصیص نہ ہو۔ نان فائلر میں آپ کا اصل سرمایہ کار ہے۔ اسے روکیں گے تو اپنے پاؤں پر کلہاڑا ماریں گے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More