عمران خان
وفاقی حکومت نے ایف آئی اے کے کرپٹ اور جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار افسران کیخلاف کارروائی کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ ایسے ایف آئی اے افسران کی فہرست مرتب کرنے کیلئے ڈی جی ایف آئی اے نے وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ سے اہم ملاقات میں معاملے کو اٹھایا، جس پر انہیں ایسے افسران کے خلاف فوری کارروائی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ڈی جی ایف آئی اے نے یہ معاملہ حکومت کے سامنے اس لئے رکھا، کیونکہ وہ 17 گریڈ اور اس سے اوپر کے افسران کے خلاف براہ راست کارروائی نہیں کرسکتے۔ اس کیلئے ڈی جی کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ کو سفارشات ارسال کی جاتی ہیں۔ تاہم طویل عرصے تک فیڈرل ہوم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایف آئی اے ڈائریکٹر جنرل کی سفارشات پر کسی بھی افسر کیخلاف ایکشن نہیں لیا گیا۔ ’’امت‘‘ کو وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کی ملاقات کے حوالے سے ذرائع سے ’’منٹس آف میٹنگ‘‘ موصول ہوئے ہیں، جن کے مطابق انکوائریوں کی زد میں رہنے والے ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران کیخلاف کارروائی کیلئے جلد ہی عمل در آمد شروع کردیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے کئی ایڈیشنل ڈائریکٹرز جن میں سے بڑی تعداد سندھ پولیس اور دیگر اداروں سے ڈیپوٹیشن پر ایف آئی اے میں آئی ہے، ان میں سے متعدد کے خلاف ثبوت اور شواہد سامنے آنے پر ان کے خلاف کارروائی کیلئے وزارت داخلہ کو لکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی گزشتہ برسوں میں کرپشن میں ملوث ہونے اور جرائم میں سہولت کار بننے پر انکوائریاں کی گئیں۔ تاہم کارروائی کی سفارش کے باوجود انہیں چھوڑ دیا گیا۔ ذرائع کے بقول ایسے 15 سے زائد ایف آئی اے افسران کا ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے، جنہوں نے گزشتہ 10 برسوں میں اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو رکوائے رکھا۔ یہ تمام 17 گریڈ یا اس سے اوپر کے ہیں، جنہوں نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے دور حکومت میں سیاسی اثر رسوخ استعمال کیا اور وزارت داخلہ تک رسائی حاصل کرکے خود کو ایف آئی اے کی محکمانہ کارروائی سے بچائے رکھا۔
دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ میٹنگ کے دوران ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے وزیر مملکت برائے داخلہ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ 17 یا اس سے اوپر کے گریڈ کے کئی افسران ایسے بھی ہیں، جن کے خلاف ڈی جی کی جانب سے کاررروائی کیلئے ہوم ڈپارٹمنٹ کو سفارشات ارسال کی گئیں۔ تاہم ان کے خلاف کارروائی تو دور کی بات تھی، بلکہ انہیں ترقیوں سے نواز دیا گیا، جو قوانین کے خلاف ہے اور اس سے ادارے کی چین آف کمانڈ پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ذرائع کے بقول موجودہ ڈی جی بشیر میمن کی تعیناتی کے بعد سے ہی امید کی جا رہی تھی کہ کرپشن اور بدعنوانیوں میں ملوث ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران کے خلاف بھی کارروائیاں سامنے آئیں گی۔ کیونکہ اسی عرصے کے دوران ایک درجن سے زائد افسران کیخلاف مس کنڈکٹ، کرپشن اور بدعنوانی کی شکایات سامنے آنے پر کارروئیاں کی گئیں۔ جن میں انہیں معطلی، انکوائریوں، تبادلوں اور مقدمات تک کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کئی ماتحت افسران کی اے سی آرز تک ذاتی مخاصمت میں خراب کرکے ان کے مستقبل کو بھی نقصان پہنچایا گیا، جو ابھی تک اپنی فائلیں درست کروانے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ تاہم اس سے زیادہ سنگین الزامات اعلیٰ افسران پر سامنے آتے رہے۔ تاہم وفاقی وزارت داخلہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایک اور افسر کے مطابق اسی عرصے میں کرپشن کے بڑے اسکینڈلز کی تحقیقات میں ملزمان کے خلاف کارروائیوں میں تاخیر کر کے ملزمان کو فائدہ پہنچایا گیا، جس کے عوض پلاٹس اور دیگر مراعات حاصل کی گئیں۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول چاروں صوبوں کے ڈائریکٹرز اور ان کے ماتحت کام کرنے والے ایڈیشنل ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹر کی جانب سے کانسٹیبل سے لے کر سب انسپکٹرز اور انسپکٹرز سطح کے افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کرنے میں ذرا برابر بھی تاخیر نہیں کی جاتی، تاہم جب ان اعلیٰ افسران کی اپنی باری آتی ہے تو ان کے خلاف ثبوت اور شواہد سامنے آنے کے باوجود ڈی جی ایف آئی اے بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خلاف براہ راست کارروائی کرنا ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتا ہے۔ جبکہ یہ افسران سیاسی پشت پناہی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے اس قدر با اثر ہوجاتے ہیں کہ ان کی پہنچ ایوانوں اور وفاقی وزیروں مشیروں تک ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی فائلیں ہوم ڈپارٹمنٹ میں ہی پڑی رہ جاتی ہیں اور ان پر کوئی ایکشن نہیں لیاجاتا۔