امت رپورٹ
سعودی عرب نے پاکستان کو معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے ریلیف پیکیج دے کر ایک تیر سے تین شکار کھیلے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ریاض، اسلام آباد کو تین ارب ڈالر نقد اور تین برس تک ہر سال تین ارب ڈالر کا ادھار تیل دے گا۔ صرف ایک ماہ پہلے اسی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا، جب وزیر اعظم عمران خان اپنے پہلے سرکاری دورے پر ریاض پہنچے تھے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس وقت مجبوری کی وجہ سعودی عرب نے اپنی معاشی مشکلات بتائی تھیں۔ تاہم باغی صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعد اچانک تبدیل ہونے والے سنیاریو نے نہ صرف پاکستان کو سعودی عرب سے اربوں ڈالر قرضہ دلانے کا راستہ ہموار کیا، بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں یمن ایشو پر جو کچھ سرد مہری آئی تھی اس کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔
ریاض میں موجود ذرائع اور مبصرین کا کہنا ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کے بعد سعودی عرب کو اپنی تاریخ کے بدترین عالمی دبائو کا سامنا ہے۔ اس دبائو سے نکلنے کے لئے اسے خلیجی ممالک کے علاوہ پاکستان جیسے دیرینہ قابل اعتماد ساتھی کی اشد ضرورت ہے۔ بالخصوص امریکہ سمیت متعدد یورپی ممالک اور تجارتی اداروں کی جانب سے سعودی عرب میں مستقبل کی عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کئے جانے کے بعد سے ریاض خود کو عالمی طور پر تنہا محسوس کر رہا تھا۔ جمال خشوگی کے قتل پر بطور احتجاج متعدد ممالک نے اپنے نمائندوں کو ریاض میں منعقدہ The Future Investment Initiative (مستقبل سرمایہ کاری اقدام فورم) میں شرکت کے لئے نہیں بھیجا۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہالینڈ سمیت دیگر ممالک کے وزرا اور نمائندے شامل ہیں۔ برطانیہ کے انٹرنیشنل ٹریڈ سیکریٹری اور امریکی وزیر خزانہ اسٹیون نے کانفرنس سے چند روز پہلے شریک نہ ہونے کا اعلان کیا۔ جبکہ جرمن چانسلر انجیلا مارکل نے کہا ہے کہ جب تک جمال خشوگی قتل کیس کی تحقیقات جاری ہیں، ان کا ملک سعودی عرب کو فوجی ساز و سامان کی فراہمی معطل رکھے گا۔ اسی طرح جے پی مورگن، سیمنز اور بلیک روک، آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹائن سمیت دنیا کے متعدد اہم تجارتی اداروں کے نمائندوں اور عہدیداروں نے بھی کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا۔ حالانکہ کانفرنس کے پہلے ایڈیشن میں یہ سب شریک تھے۔ جبکہ بلوم برگ، سی این این اور فنانشنل ٹائمز سمیت دیگر کئی میڈیا گروپ بھی کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے والوں میں شامل رہے۔ ذرائع کے مطابق ایسے میں سعودی عرب کو پاکستان جیسے ملک کی مدد درکار تھی۔ پاکستان نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بائیکاٹ کرنے کے بجائے کانفرنس میں شرکت کی اور سب سے بڑھ کر اس قتل کیس کے حوالے سے کوئی منفی بیان دینے سے گریز کیا۔ کانفرنس میں شرکت پر اگرچہ مختلف عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن موجودہ معاشی بحران کے سبب پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے اربوں ڈالر کے قرضے کا معاملہ پہلے ہی سفارتی سطح پر طے ہو گیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ایک دم سعودی عرب گئے۔ شاہ سلمان سے گلے ملے اور انہوں نے پیسے دینے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ ذرائع کے بقول سنگین معاشی بحران میں پاکستان کی مدد کر کے ایک طرف سعودی عرب نے اپنی اہم اقتصادی کانفرنس میں اسلام آباد کی شرکت یقینی بنائی اور عالمی تنہائی جیسے احساس کو قدرے کم کیا اور دوسری جانب مستقبل کے اسٹرٹیجک معاملات میں بھی پاکستانی مدد کو یقینی بنایا، جو اسے یمن ایشو کے حوالے سے درکار ہیں۔ قبل ازیں اس معاملے پر گزشتہ نواز حکومت سعودی حکمرانوں کی توقعات پر پوری نہیں اتر سکی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ یمن کے معاملے پر سعودی عرب ایک ڈویژن کے قریب فوج کی ریاض میں موجودگی چاہتا تھا۔ اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ پاکستانی فوجیوں کو یمن کی خانہ جنگی میں حصہ لینے کے لئے بھیجا جاتا، بلکہ یہ ایک طرح کی علامتی کمٹمنٹ ہوتی۔ جس کے ذریعے یمن میں حکومت مخالف گروپوں کو پیغام دیا جاتا کہ سعودی عرب تنہا نہیں ہے۔ اس پر اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف آمادہ ہو گئے تھے۔ تاہم اپوزیشن کی سخت مخالفت کے سبب نواز شریف کو بیک فٹ پر جانا پڑا۔ اس مخالفت میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی پیش پیش تھی۔ جس کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے اہم پڑوسی ملک ایران ناراض ہو سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے دبائو کے سبب اپنی کمٹمنٹ سے پیچھے ہٹنے والے نواز شریف کو اس کا خمیازہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ناراضگی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سعوی عرب کے تازہ ریلیف پیکیج کے بدلے میں اب ایک بار پھر پاکستان کو یمن ایشو پر گزشتہ حکومت جیسے مطالبہ کا سامنا ہے۔ جو آنے والے دنوں میں ضرورت پڑنے پر کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ ماضی میں اس اقدام کی مخالفت کرنے والے عمران خان سعودی مطالبے کو رد کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے عوض سعودی عرب یہ بھی چاہے گا کہ ترکی کو رام کرنے کے لئے اسلام آباد اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے، تاکہ صدر اردگان کی طرف سے جمال خشوگی کے قتل پر جو سخت موقف اپنایا گیا ہے، ریاض اس دبائو سے نکل سکے۔
اس معاملے پر معروف عکسری و سیاسی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو پاکستان سے سیاسی یا معاشی سپورٹ درکار نہیں۔ وہ صرف ملٹری سپورٹ چاہتا ہے۔ اور پاکستان یہ سپورٹ دینے کی پوزیشن میں ہے۔ سعودی قرضے کے بدلے اس قسم کا مطالبہ باعث حیرت نہیں ہوگا۔ آصف ہارون کا مزید کہنا تھا ’’میری ذاتی رائے میں سعودی عرب وزیر اعظم پاکستان کے پہلے دورے کے موقع پر ریلیف پیکیج دینے کا اعلان نہ کر کے عمران خان کو سبق سکھانا چاہتا تھا۔ کیونکہ یمن ایشو پر پاکستانی فوجی مدد کے خلاف پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ شور عمران خان کی پی ٹی آئی نے مچایا تھا۔ حتیٰ کہ اس معاملے پر پارٹی رہنمائوں نے غلط قسم کی زبان بھی استعمال کی۔ جس پر سعودی عرب پی ٹی آئی قیادت سے متنفر ہو گیا تھا۔ چونکہ ریاض پاکستان کو کھونا بھی نہیں چاہتا تھا، اس لئے قرضہ تو اس نے دینا تھا۔ لیکن وہ پہلے گھٹنے زمین پر لگوانے کا خواہش مند تھا۔ بدقسمتی سے اس دوران جمال خشوگی کا واقعہ ہو گیا۔ یوں سعودی عرب نے پاکستان کی معاشی مدد کر کے ایک طرف سبق سکھانے کا مقصد پورا کر دیا اور ساتھ ہی اپنی انٹرنیشنل کانفرنس کی ناکامی کا تاثر بھی کم کیا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی شرکت نے سعودی عرب کو یقیناً تھوڑی بہت ڈھارس پہنچائی‘‘۔ آصف ہارون نے اس بات سے اتفاق کیا کہ سعودی عرب جمال خشوگی کے قتل پر اردگان کی برہمی ختم کرنے کے لئے بھی پاکستان کی مدد چاہتا ہے۔ آصف ہارون کے بقول ترکی کے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ انتہائی گہرے تعلقات ہیں۔ اس وقت اگر دنیا میں ترکی پر کوئی ملک influence کر سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ سعودی عرب، پاکستان کے ذریعے یہ چاہے گا کہ وہ اردگان کو ہاتھ ہلکا رکھنے کی درخواست کرے۔ اس ریلیف کا مقصد قطعاً یہ نہیں ہو گا کہ جمال خشوگی کے قتل کی تحقیقات نہ کی جائیں۔ یا قاتلوں کو گرفتار نہ کیا جائے۔ یا انہیں کیفر کردار تک پہنچانے سے گریز کیا جائے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ تحقیقات کا سرا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان تک جانے سے روکا جائے۔ یہی صدر ٹرمپ کی بھی خواہش ہے۔ باقی دیگر کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے تو اس سے سعودی ولی عہد کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آصف ہارون کا کہنا تھا کہ نواز دور حکومت میں یمن ایشو کے حوالے سے سعودی درخواست تسلیم نہ کرنا بڑی حماقت تھی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہونے جا رہا تھا۔ خلیج جنگ میں بھی عراق بارڈر پر پاک فوج کے دو بریگیڈ تعینات کئے گئے تھے۔ پاکستانی فوجیوں نے عراق میں جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا، تاہم سرحد پر تعیناتی کا مقصد سعودی عرب کا دفاع تھا۔ یمن ایشو پر بھی سعودی عرب اسی طرح کی پاکستانی مدد چاہتا تھا۔ اس وقت بھی گیارہ بارہ سو کے قریب پاکستانی فوجی تربیتی مقاصد کے تحت سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ٭