نجم الحسن عارف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سیاسی کچن کیبنٹ کے اہم رکن اور سابق وزیر پانی و بجلی اور سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے علاوہ ان کے اہل خانہ بھی نیب انکوائری کی زد میں آگئے ہیں۔ نیب نے اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں سے خواجہ آصف، ان کی اہلیہ مسرت خواجہ، بیٹے اسد خواجہ، بیٹیوں عاتکہ اور امیرہ وغیرہ کے تمام موجودہ و سابقہ بینک اکائونٹس اور ان سے ہونے والی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بھی نیب سے تعاون کے لیے تمام بینکوں کو ہدایت جاری کر دی ہے۔ نیب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سطح پر یہ پیش رفت دس اکتوبر سے سولہ اکتوبر کے دوران ہوئی، جبکہ ان دنوں تمام متعلقہ بینکوں میں اس خاندان کے بینک اکائونٹس کے بارے میں ریکارڈ مرتب کیا جارہا ہے۔ بینکوں کی طرف سے فراہم کئے جانے والے ریکارڈ کی بنیاد پر ممکنہ منی لانڈرنگ کا پتہ چلانے کی کوشش کی جائے گی۔ علاوہ ازیں خواجہ آصف اور ان کے اہلخانہ کے مختلف شہروں اور جگہوں پر جائیدادوں کی تفصیلات بھی حاصل کی جارہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق نیب نے فی الحال فوکس بینک ٹرانزیکشنز کو کیا ہوا ہے، جو خواجہ آصف کے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے ہوئیں یا ان کے پانی و بجلی کے دور وزارت میں کی گئیں۔ واضح رہے کہ یہ کسی معروف سیاستدان اور ان کے تمام اہل خانہ کو منی لانڈرنگ کے الزام کے تحت تحقیقات کی لپیٹ میں لیے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ علاوہ ازیں نیب کی طرف سے خواجہ محمد آصف اور ان کے اہل خانہ کے نام بینکوں سے لئے گئے کسی بھی قسم کے قرضے اور اس کا اسٹیٹس بھی جانا جائے گا۔ جبکہ سابق وفاقی وزیر اور ان کی رکن قومی اسمبلی اہلیہ مسرت خواجہ سمیت بیٹے اور بیٹیوں کے نام سے مبینہ سرمایہ کاری اور کاروباری شراکت داریوں کا بھی پتہ چلایا جائے گا۔
دوسری جانب نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی فرد یا افراد کے بارے میں تحقیقات شروع کرنا اور متعلق بینکوں یا دیگر اداروں سے مدد لینا معمول کی بات ہے۔ متعلقہ افراد کے اثاثوں کی تفصیلات، کاروبار اور بینک اکائونٹس کے علاوہ بینکوں سے کی جانے والی ٹرانزیکشن کے بارے میں معلومات جمع کیے بغیر حقائق معلوم نہیں کیے جا سکتے۔ اس مقصد کے لیے زیر استعمال نہ رہنے والے یا بند کر دیئے جانے والے اکائونٹس سے کی گئی ٹرانزیکشنز کو بھی کھنگالا جاتا ہے، تاکہ تصویر کا پورا رخ واضح ہو سکے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق نیب کی طرف سے دس اکتوبر کو اسٹیٹ بینک حکام کے ساتھ کئے گئے باضابطہ رابطے کے بعد اسٹیٹ بینک نے بھی دس دن قبل دوسرے بینکوں کو ہدایت جاری کر دی تھی کہ خواجہ محمد آصف اور دیگر کے بارے میں نیب سے بھرپور تعاون کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر گلزار امین مرچنٹ کے دستخط سے لکھے گئے خط میں نیب آرڈیننس 1999ء کے سیکشن 19 کے تحت بینکوں کو نیب سے تعاون کا پابند قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اس خط میں خواجہ آصف کے فیملی ممبران کے بجائے خواجہ آصف اور دیگر کا ذکر کیا گیا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس سے مراد خواجہ آصف کے اہل خانہ ہی ہیں۔ اس سلسلے میں آئندہ چند دنوں میں سارا ریکارڈ نیب کے پاس ہوگا۔ اس ریکارڈ میں بینک اکاونٹس کی تمام تفصیلات کے علاوہ ان سے ہونے والی ٹرانزیکشنز کا بھی ریکارڈ شامل ہو گا کہ کب اور کس کے نام پیسے بھجوائے گئے اور کتنے بھجوائے گئے۔ علاوہ ازیں نیب ذرائع کے مطابق زیر انکوائری خاندان کے جملہ ارکان کے نام مختلف شہروں اور جگہوں پر جائیدادوں کا ریکارڈ بھی حاصل کیا جارہا ہے۔ اس کیلئے سی ڈی اے اور ایل ڈی اے وغیرہ کی مدد بھی لی جائے گی۔ نیز ان کی سرمایہ کاری کے بارے میں بھی متعلقہ اداروں سے معلومات اکٹھی کی جائیں گی۔ ان معلومات کی بنیاد پر تحیقیقات آگے بڑھیں گی اور ضروری ہوا تو خواجہ آصف یا ان کے اہلخانہ کو اپنا موقف دینے کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ خواجہ آصف ماضی میں متحدہ عرب امارات میں بینک کی ملازمت کر چکے ہیں، جبکہ ان کا نام حالیہ برسوں کے دوران اقامہ ہولڈنگ کے حوالے سے بھی سامنے آچکا ہے۔ الزم لگایا جاتا رہا ہے کہ کئی سابق وفاقی وزرا اسی اقامے کی بنیاد پر بیرون ملک میں مالی مفادات سے جڑے رہے ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہیں جنہوں نے اقامہ کا حامل ہونا باضابطہ ڈکلیئر نہیں کیا تھا۔ ایک سابق وفاقی وزیر کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اہلخانہ کو کینیڈا کی شہریت دلوائی، مگر خود دوہری شہریت تو حاصل نہیں کی، البتہ کینیڈا کی اقامتی دستاویزات حاصل کر لیں۔ تاہم ابھی اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ نواز لیگ کے اہم رہنما کے مطابق میاں نواز شریف کے ایک اور قریبی ساتھی بھی نیب کی لپیٹ میں آنے والے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ابھی تک میاں نواز شریف سے لے کر میاں شہباز شریف تک اور خواجہ سعد رفیق سے خواجہ آصف تک کوئی ٹھوس ثبوت لانا ممکن نہیں ہوا ہے۔ اس لیے جہاں پہلے والے کیس بودے ثابت ہو رہے ہیں، یہ بھی اسی درجے میں جائے گا۔
نواز لیگ کے اہم رہنما کے مطابق میاں نواز شریف کے ایک اور قریبی ساتھی بھی نیب کی لپیٹ میں آنے والے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ابھی تک میاں نواز شریف سے لے کر میاں شہباز شریف تک اور خواجہ سعد رفیق سے خواجہ آصف تک کوئی ٹھوس ثبوت لانا ممکن نہیں ہوا ہے۔ اس لیے جہاں پہلے والے کیس بودے ثابت ہو رہے ہیں، یہ بھی اسی درجے میں جائے گا۔
ادھر سیالکوٹ میں میں موجود ذرائع نے بتایا ہے کہ خواجہ آصف اپنے بیٹے اسد کو سیاسی جانشین کے طور پر آگے لا رہے ہیں۔ اسد خواجہ فاسٹ فوڈ چین کے کاروبار میں ہیں، جبکہ خواجہ آصف کی اہلیہ جو پہلی بار نون لیگ کی طرف سے رکن قومی اسمبلی بنی ہیں، کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ سیالکوٹ میں کینٹ ہائوسنگ سوسائٹی کے مالکان میں سے ایک ہیں۔ لیکن اس بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ ان کا شئیر کتنا ہے۔ ادھر نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیر خارجہ اور ان کے اہلخانہ کے بارے میں انکوائری ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ٹھوس چیزوں کے سامنے آنے کے بعد خواجہ فیملی کے افراد میں سے جسے ضروری سمجھا گیا، اسے موقف جاننے کے لیے بلایا جائے گا۔ اگر چیزیں ثابت ہوئیں تو باضابطہ طور پر انوسٹی گیشن بھی لانچ کی جائے گی اور بعد ازاں ریفرنس دائر کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭