عمران خان
ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن نے اندرون سندھ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ریکوری آپریشن کے دوران حیدر آباد، سکھر، نواب شاہ اور ملحقہ علاقوں میں چھاپے مار کر سیاسی اثرورسو خ رکھنے والی شخصیات سے 34 لگژری گاڑیاں برآمد کرلیں۔ اسمگل شدہ گاڑیاں سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والے افراد کئی برس سے کھلے عام چلا رہے تھے۔ کئی گاڑیوں کے انجن اور چیسس نمبرز میں ٹمپرنگ کرکے انہیں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسران کی ملی بھگت سے رجسٹرڈ کرایا گیا تھا۔ لیکن سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے اور اعلیٰ سرکاری افسران کے عزیزواقارب کے زیر استعمال ان گاڑیوں کیخلاف کبھی کارروائی نہیں ہوسکی تھی۔ کسٹم ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اندرون سندھ اسمگل شدہ گاڑیوں اور اسمگل شدہ ’’جنرل گڈز‘‘ کیخلاف کارروائیوں کیلئے ایک برس قبل تک ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کا فیلڈ اسٹاف ایک ٹیم کی صورت میں تعینات رہتا تھا۔ تاہم وہ وسیع و عریض اور دور دراز علاقوں میں پٹرولنگ کرکے کارروائیاں کرنے کیلئے ناکافی ثابت ہورہا تھا، جس کی وجہ سے اسمگل شدہ گاڑیوں کیخلاف خلاف بھرپور کارروائیاں نہیں ہوسکی تھیں۔ جبکہ کراچی میں موجود ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کی تمام ٹیمیں کراچی میں ہی مصروف رہتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس حیدرآباد میں ایک علیحدہ ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن قائم کرنے کی منظوری دی گئی، جس کے تحت حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ اور ملحقہ علاقوں کو اس ڈائریکٹوریٹ کی حدود میں شامل کیا گیا۔
ذرائع کے بقول فی الوقت کسٹم انٹیلی جنس حیدرآباد کا چارج اضافی طور پر ڈائریکٹوریٹ کراچی کسٹم انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر فیاض انور کو دیا گیا ہے۔ تاہم جلد ہی یہاں علیحدہ ڈائریکٹر تعینات کردیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق حیدرآباد ڈائریکٹوریٹ کو فعال کرنے کیلئے رواں برس کراچی کسٹم انٹیلی جنس سے ڈپٹی کلکٹر شاہ فیصل سہتو کو تعینات کیا گیا، جنہوں نے اپنی ٹیم میں شامل سپرنٹنڈنٹ طارق رفیق اور انٹیلی جنس افسر شفیق علی کے ساتھ اندرون سندھ کے شہروں میں کسٹم انٹیلی جنس کی کارروائیوں کیلئے نیٹ ورک قائم کیا اور نان کسٹم پیڈ لگژری گاڑیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا، تاکہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے والوں سے گاڑیاں ریکور کی جاسکیں۔ ذرائع کے مطابق اس آپریشن میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران 34 لگژری گاڑیاں برآمد کی گئی ہیں۔ ان میں 24 گاڑیاں اسمگل شدہ ہیں اور ان پر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کیا گیا ہے۔ جبکہ 9 گاڑیوں کے کوائف میں جعلسازی سے ردوبدل کرکے انہیں چلایا جارہا تھا۔ مذکورہ گاڑیوں کی مالیت 10 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور ان پر اتنی ہی مالیت کی کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کئے گئے۔ اس آپریشن میں درج ہونے والے مقدمات کی تحقیقات میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ نان کسٹم پیڈ لگژری گاڑیوں میں سے کئی کو بھاری رشوت کے عوض محکمہ ایکسائز کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے راشی افسران کی ملی بھگت سے رجسٹرڈ کرایا گیا جبکہ کئی گاڑیاں بغیر رجسٹریشن کے جعلی کاغذات پر چلائی جا رہی تھیں۔ تاہم یہ گاڑیاں استعمال کرنے والوں کا تعلق یا تو سیاسی جماعتوں سے ہے یا وہ سیاسی اثرورسوخ کے حامل ہیں یا اعلیٰ سرکاری افسران کے عزیز و اقارب ہیں۔ ذرائع کے مطابق اندرون سندھ کئی وڈیروں اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں کے پاس بڑی تعداد میں نان کسٹم پیڈ اسمگل شدہ لگژری گاڑیاں موجود ہیں۔ تاہم ان کے خلاف کارروائی کیلئے زیادہ افرادی قوت پر مشتمل ٹیموں اور وسائل کی ضرورت ہے۔ جبکہ کسٹم انٹیلی جنس حیدرآباد کے ڈائریکٹوریٹ کے پاس فی الوقت نفری ضرورت سے بہت کم ہے۔ کسٹم انٹیلی جنس حیدرآباد کے ایک افسر کے بقول ان کے پاس ڈائریکٹوریٹ کیلئے منظورہ شدہ نفری میں سے صرف 10 فیصد اہلکار ہیں، اس کے باجود آپریشن کے دوران اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اگر ٹیموں کی تعداد بڑھ جائے تو اسمگل شدہ گاڑیوں کی برآمدگی میں 3 سے 4 گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ افسر کے بقول حیدر آباد، سکھر، نواب شاہ اور ان کے مضافاتی علاقے طویل سفر اور پیچیدہ راستوں پر مشتمل ہیں۔ کسی خفیہ اطلاع پر محدود نفری جب کارروائی کیلئے جاتی ہے تو اس میں کافی تاخیر اور مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس کے علاوہ دور درراز علاقوں کی روایتی صورتحال کے پیش نظر ٹیموں کو مکمل تیاری کے ساتھ جانا پڑتا ہے تاکہ ممکنہ مزاحمت اور ناخوشگوار صورتحال سے نمٹا جاسکے۔
ذرائع کے مطابق کسٹم انٹیلی جنس حیدرآباد ڈائریکٹوریٹ کے تحت جنرل گڈز یعنی مختلف قسم کے سامان کی اسمگلنگ کے خلاف بھی گزشتہ 6 ماہ میں 40 سے زائد کارروائیاں کی جاچکی ہیں، جس میں کروڑوں روپے کی اسمگل شدہ چھالیہ، ایرانی تیل اور کپڑے کے علاوہ دیگر سامان برآمد کیا گیا۔ ذرائع کے بقول اندرون سندھ کسٹم انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے فعال ہونے کے بعد جو کارروائیاں ہوئیں ہیں ان میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ایرانی تیل اور دیگر سامان ٹرکوں اور کنٹینرز کے ذریعے ایران اور افغانستان سے اسمگل کرکے اندرون سندھ اور کراچی میں سپلائی کیا جا رہا ہے۔ اسمگلرز کی جانب سے مختلف کمپنیوں کے ناموں پر جعلی امپورٹ کی دستاویزات تیار کرکے ان ٹرکوں کے ڈرائیورز کو تھما دی جاتی ہیں، جسے دکھا کر اسمگلنگ کا یہ نیٹ ورک گزشتہ کئی برسوں سے کامیابی سے چلایا جاتا رہا ہے۔ تاہم ماضی میں اندرون سندھ کام کرنے والا فیلڈ اسٹاف اس نیٹ ورک کو توڑنے میں ناکام ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں اندرون سندھ اسمگلرز کے 1800 سے زائد ٹھکانے اور ڈمپنگ پوائنٹس بن گئے، جہاں اسمگلنگ کا سامان چھپانے کے بعد سپلائی کیا جاتا ہے۔ کسٹم انٹیلی جنس حیدرآباد کی جانب سے حالیہ دنوں میں کی گئی کارروائیوں میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ملک کے مختلف ڈرائی پورٹس پر تعینات افسران اسمگلنگ میں سہولت کار بنے ہوئے ہیں، جن کی ملی بھگت سے درجنوں اسمگلرز جعلی دستاویزات پر اربوں روپے کا اسمگل شدہ سامان اندرون سندھ سپلائی کرکے کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭