احمد خلیل جازم
جب میں قادیانیوں کا ناظم نشر و اشاعت مقرر ہوا تو پھر میرا کام تربیتی کورس کرانا ہوتا تھا۔ لاہور میں مسلم ٹائون میں ایک بہت بڑی عمارت ہے، جو سرظفراللہ نے مرزائی جماعت کو اس غرض سے دی تھی کہ یہاں دیگر علاقوں سے آنے والے قادیانی طالب علم رہائش اختیار کرسکیں۔ اسے دارالحمد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہاں میں ہر ماہ تربیتی نشست منعقد کراتا تھا۔ وہاں جو طالبعلم آتے، وہ عام سوالات نہیں کرتے تھے۔ یہ طلبا وفات مسیح کے حوالے سے خاص طور پر پوچھتے اور دیگر چبھتے ہوئے سوالات کرتے، جن کا ان کے مربیوں کے پاس جواب نہیں ہوتا تھا۔ اگر وہ سوالات کرتے تو مربی انہیں ڈانٹ کر خاموش کرادیتے۔ وہ مجھے تنگ کرتے کہ آپ کیسے ناظم ہیں کہ آپ ہمیں مطمئن نہیں کر پاتے۔ مثلاً وہ مرزا کی کتب میں وفات مسیح پر تضادات پر سیخ پا ہوتے۔ کہتے، مرزا ایک جگہ لکھتا ہے کہ یروشلم، محلہ ناصریہ میں حضرت عیسیٰ کی قبر ہے۔ اسی طرح کشمیر کے بارے میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ وہاں پر مسیح کی قبر ہے۔ جب اس کی ہر بات میں تضاد دکھائی دیتا ہے، تو خدا کیوں اپنے نبی کو تضادات پر مبنی باتیں بتائے گا۔ ایک شخص ہے جس کا وفات مسیح کے حوالے سے قادیانیت میں بنیادی رول ہے۔ اس کا نام عبداللہ کشمیری تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ بعد ازاں قادیانیت چھوڑ کر بہائی ہوگیا۔ مرزا نے اس کی کشمیر میں ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہاں حضرت عیسیٰ کی قبر ڈھونڈو۔ چنانچہ اس نے سری نگر مقبوضہ کشمیر میں محلہ ’خان یار‘ میں حضرت بل کے مقام پر حضرت عیسیٰ کی قبر دریافت کی۔ اس بارے میں یہ کہانی گھڑی گئی کہ یہاں آکر حضرت عیسیٰ نے اپنا نام یوضا آصف رکھ لیا تھا۔ یہ ساری تحقیق عبداللہ کشمیری کی تھی، جس پر غلام احمد قادیانی نے وفات مسیح کی ساری کہانی بنائی اور اس پر اس نے ’مسیح ہندوستان میں‘ جیسی کتب تحریر کیں۔ مرزا کی روحانی خزائن اٹھا کر دیکھ لیں۔ وہ الہام دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی تحقیق، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کبھی اُس کی بات کرتا ہے اور کبھی اِس کی بات کرتا ہے۔ اِدھر اُدھر سے باتیں اٹھا کر تحریر کر رہا ہے۔ الہام تو پتھر پر لکیر ہوتا ہے۔ خدا نے ایک بار جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ یہاں بار بار موقف کسی کے کہنے اور کسی اور کی تحقیق پر تبدیل ہوتا دکھائی دے گا۔ میں اب دعوے سے کہتا ہوں کہ کوئی ایک حدیث اور ایک نشانی بھی مرزا قادیانی کے مہدیؑ اور مسیح ہونے پر پوری نہیں اترتی۔ اور یہ دعویٰ میں نے ربوہ میں بڑے بڑے مربیان کے سامنے کیا کہ مجھے کوئی ایک حدیث یا ایک نشانی بتا دیں جو مرزا پر پوری اترتی ہو کہ وہ مسیح موعود یا مہدی ہے۔ یہ اثر مجھ پر دارالحمد میں ان طلبا کے سوالات کی وجہ سے ہوا۔ کیونکہ وہ مجھ سے سوالات کرتے تھے اور میں ان کا جواب نہیں دے پاتا تھا۔ میں کیا، بڑے بڑے مربی خاموش ہو جاتے تھے۔ اسی طرح طلبا مرزا کے نام پر بہت سوالات کرتے کہ اس کا نام غلام احمد تھا۔ بعد میں مرزا غلام احمد از قادیان ہوا، اور روحانی خزائن میں غلام احمد قادیانی لکھا ہوا ہے۔ اس پر ایک بہائی مصنف نے بہت عمدہ تحقیق کی ہے۔ اس کی کتاب کا نام ’بہائیت اور احمدیت، تقابلی مطالعہ‘ ہے۔ اس میں مصنف نے اس نام پر مرزا کے پول کھول کر رکھ دئیے۔ اب مرزا نے یہاں بدمعاشی یہ کی کہ غلام احمد سے اس کے نام کے اعداد چودھویں صدی سے مطابقت نہیں رکھتے، چنانچہ اس نے اعداد پورے کرنے کے لیے نام کو چودھویں صدی کے مطابق کیا۔ اب ان طلبا کے سوالات نے مجھے مزید تحقیق پر اکسایا، اور جب میں نے دیگر کتب کا مطالعہ کیا تو مجھ پر کھلنا شروع ہوا کہ یہ سب کچھ تو جھوٹ پر مبنی دکھائی دیتا ہے۔ وہ صرف اسے جواز بناتا ہے کہ چونکہ چودھویں صدی میں یا اس کے بعد مہدی و مسیح نے آنا ہے اور میرے نام میں چودہ کا مرکب موجود ہے، لہٰذا میں ہی نعوذ باللہ وہی نبی ہوں۔ اب مجھ پر یہ کھلنا شروع ہوا کہ میں نے تبلیغ کا مرکز صرف وفات مسیح کیوں رکھا ہوا ہے اور دوسری جانب کیوں نہیں گیا۔ میں نے بہائیوں کی کتب کا مطالعہ کیا، جس سے یہ وضاحت ہوئی کہ مسیح اور مہدی الگ الگ ہیں، جبکہ مرزا نے دونوں کو ایک ہی بناکر خود کو مسیح اور مہدی ڈکلیئرکردیا۔ لیکن قادیانی ایک بھی حدیث مبارکہ اس حوالے سے پیش نہیں کرسکتے۔ اس کے مقابلے میں بہائی جو احادیث پیش کرتے ہیں، اس پر محمد علی باب کو پورا اترتا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ بھی جھوٹے ہیں۔ میں اس بحث میں نہیں جاتا۔ ورنہ اپنے اصل موضوع سے ہٹ جائیں گے۔ اب مرزا بشیرالدین محمود احمد کا کہنا ہے کہ احادیث میں جو مہدی کے بارے میں ذکر ہے، وہ میں ہوں۔ کیونکہ مہدیؑ نوجوان ہوں گے اور وہ میں ہی ہوں۔ یعنی مرزا قادیانی کو اس بیٹا خود ہی جھوٹا ثابت کر رہا ہے۔ یہ بات 1914ء کے الفضل میں لکھی ہوئی ہے۔ اگرچہ اس کا اپنے بارے میں بھی دعویٰ کذب پر مبنی ہے۔
دوسری جانب بہائیوں کو دیکھیں تو وہ مرزا کے مقابلے میں بہتر دلائل دیتے ہیں اگرچہ وہ دلائل بھی جھوٹ پر مبنی ہیں، لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا جھوٹ اس خوبصورتی سے ترتیب دیا گیا ہے کہ اس پر لوگ جلد اعتبار کرلیتے ہیں۔ اب ادھر ہمارے مسلمان علما ہیں جو کہتے ہیں کہ قادیانیوں کے پاس وفات مسیح کے علاوہ کچھ نہیں، لیکن وہ اس کے خلاف ثبوت کے بجائے لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں۔ وفات مسیح پر میں نے خود تحقیق کی ہے۔ کسی مسلمان عالم دین نے مجھے مطمئن نہیں کیا۔ مجھے یقین آگیا کہ مرزا قادیانی اس معاملے میں جھوٹ کا سہارا لے رہا ہے۔ لیکن ایک سادہ مسلمان یہ تحقیق نہیں کرسکتا۔ اسے سمجھانے کی ذمہ داری ہمارے علمائے دین کی ہے۔ امتی نبی کے حوالے سے بات کرلیں تو مرزا بشیرالدین کے الفضل میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں اور کتب میں بھی تحریر ہے کہ مہدی امتی نہیں ہوسکتا۔ اب باپ خود کو مہدی کہتا ہے اور بیٹا کہتا ہے کہ امتی اور نبی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یعنی نبی کا امتی تو ہوسکتا ہے، نبی امتی نہیں ہو سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ مرزا نبی ہے تو اسے نبی کہو، امتی نبی کیوں کہتے ہو۔ یہ سوال بھی دارالحمد میں مجھ سے کیا جاتا، جس کا میرے پاس جواب نہ ہوتا۔ میں یہ بات مربیوں سے کرتا تو وہ مجھے سے لڑنے کو آجاتے اور کہتے کہ تم مولویوں کے پاس بیٹھتے ہو۔ میں ان سے کہتا کہ یہ سوالات تو قادیانیوں کی نسل نو مجھ سے کرتی ہے، یہاں مولوی کہاں سے آگئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے مربیوں کے پاس بھی جب جواب نہیں ہوتا تو وہ بھی لڑنے مرنے پر آجاتے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ نئے قادیانی ہونے والے بڑے فخر سے کہتے کہ بھئی اب میں پکا قادیانی ہوچکا ہوں، کیونکہ اب مجھے مربیان سے مار پڑ چکی ہے۔ ادھر مسلمان مولوی سے سوال کریں تو جواب نہ ہونے کی صورت میں قادیانی کہلاتے ہیں۔ قادیانیوں سے سوال کرو تو مولوی کے پاس بیٹھنے والا بول کر مارا جاتا ہے۔ ان مربیان سے میں کہتا کہ مولوی تو ڈائریکٹ تمہیں کافر کہتے ہیں وہ نبی اور امتی نبی کی تو بات ہی نہیںکرتے۔ دارالحمد میں مجھ پر ایسے سوالات ہوتے جو میرے لیے تحقیق کے در وا کرتے اور یوں میں قادیانیت سے دور ہوتا گیا۔ مثلاً ہمارے علما کہتے ہیں کہ مرزا لیٹرین میں مرا۔ میں بڑے اعتماد سے کہتا تھا کہ کوئی یہ بات ثابت کر دے تو میں قادیانیت چھوڑ دوں گا۔ کوئی مولوی یہ بات ثابت نہ کرسکا۔ صرف ہوا میں تیر چلاتا۔ لیکن مرزا کے سُسر نواب ناصر نے اسے ثابت کر دیا۔ مرزا کے بیٹے بشیرالدین نے اپنے نانا کے حوالے سے ’سیرت المہدی‘ کے نام سے کتاب میں لکھا کہ جب مرزا کو ہیضہ کا مرض لاحق ہوا تو اس نے مجھے اپنے قریب بلایا اور کہنے لگا کہ نواب صاحب میرے ساتھ وہی ہو رہا ہے، جو میں لوگوں کو کہتا رہا۔ جس اللہ کے عذاب میں لوگوں کو مبتلا ہونے کی بدعا دیتا تھا، وہی اللہ میرے ساتھ کر رہا ہے۔ چونکہ مرزا دوسرے لوگوںکو طاعون، ہیضے وغیرہ کے عذاب سے ڈراتا تھا، وہی کچھ اس کے ساتھ ہونے لگا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ حوالہ ہمارے علما نوٹ نہیں کرتے۔ میں یہ بات مربیان سے کرتا تو وہ مجھ سے لڑ پڑتے کہ تم یہ کیا باتیں لے بیٹھے ہو، یہ باتیں تو مولوی بھی نہیں کرتے، تم کیوں کر رہے ہو۔ جماعت احمدیہ نے اب یہ حرکت کی ہے کہ سیرت المہدی کی جو نئی طباعت ہو رہی ہے، اس میں سے یہ حصہ ہی اڑا دیا گیا ہے۔ لیکن پرانی کتب میں یہ حوالہ موجود ہے اور میں اسے دیکھ چکا ہوں۔ ہمارے علما اس پر بات ہی نہیں کرتے۔ اگر میں نے کسی عالم دین سے یہ بات سنی ہوتی تو شاید میں قادیانیت کی جانب راغب ہی نہ ہوتا۔ یہ سب کچھ میں نے دارالحمد میں ان لڑکوں کے سوالات سے اخذ کیا۔ وہ لڑکے جو یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں، انہیں بھی ان سوالات کے جواب نہیں ملتے۔ اسی لیے وہ تربیتی کورس کے دوران مجھ سے پوچھا کرتے تھے۔ وہیں مجھے متباہن لفظ کے بارے میں معلوم ہوا۔ یعنی کہ امتی اور نبی آپس میں متباہن ہیں۔ متباہن یعنی کہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ چنانچہ یہ تو طے ہوا کہ قادیانی جو یہ بات کرتے ہیں کہ مرزا امتی نبی ہے، اس کی نفی اس کا اپنا بیٹا کر رہا ہے۔ باقی کیا رہ جاتا ہے؟۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭