مخیر شخص نے رکشہ ڈرائیور کے روزگار کا انتظام کردیا

0

عظمت علی رحمانی
غربت سے تنگ آکر اپنا رکشہ جلاکر خود سوزی کی کوشش کرنے والے شاہد کیلئے ایک مخیر شخص نے روزگار کا انتظام کر دیا ہے۔ شاہد کو سوا دو لاکھ روپے کا نیا رکشہ دلایا گیا ہے۔ جبکہ پولیس نے اسے پرانا (جل جانے والا) رکشہ ٹھیک کراکے دینے کا آسرا دے رکھا ہے۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو وہ کرایہ ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ تاہم اسے اصل فکر اپنے بیمار بچوں کی ہے۔ اس کے بچوں کے علاج کا تاحال بندوبست نہیں ہو سکا۔ چونتیس سالہ رکشہ ڈرائیور شاہد کو یہ بھی فکر ہے کہ وہ گھر کا خرچہ کیسے چلائے گا اور کرایہ کہاں سے ادا کرے گا۔
سی این جی کی بندش پر سب سے زیادہ پریشان رکشہ ڈرائیورز ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس بندش کی وجہ سے انہیں پیٹرول پر رکشہ چلانا پڑتا ہے۔ سی این جی کے ناغے والے روز رکشہ ڈرائیوروں کو 100 روپے کی سی این جی کی جگہ 300 روپے کا پیٹرول لے کر نکلنا پڑتا ہے۔ غربت سے تنگ 34 سالہ شاہد نے بھی ناغے والے روز ناظم آباد کے پٹرول پمپ پر اپنا رکشہ لگایا تو اس کے پاس صرف سو روپے تھے۔ اس نے بوتل میں پیٹرول خریدا اور اپنی آخری جمع پونجی اور امید کی کرن رکشے کو اپنے ہی ہاتھوں سے آگ لگا دی۔ اس کے بعد بچ جانے والا پٹرول خود پر چھڑک کر خود سوزی کی کوشش کی، تاہم اس دوران شہریوں نے اسے ایسا کرنے سے روک لیا۔ رکشہ ڈرائیور شاہد کے رکشہ جلانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آئی تو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے علاوہ پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی۔ جس کے بعد شاہد کو قریبی تھانے گلبہار لے جایا گیا۔ شاہد نے پولیس کو بتایا کہ اس کے اوپر دو ماہ کا گھر کا کرایہ 14 ہزار روپے چڑھا ہوا ہے۔ وہ دن بھر جو کچھ کماکر لاتا ہے، اس سے بمشکل گھر کا خرچہ چل پاتا ہے۔ جب کہ اس کے 5 بچوں میں سے 3 بچوں کو بینائی کی شدید پرابلم ہے۔ انہیں رات کو نظر نہیں آتا۔ ان کے علاج پر بھی پیسے خرچ ہوتے ہیں اور یوں ساری مجبوریوں سے تنگ آکر اس نے خود سوزی کی کوشش کی۔ اس پر پولیس اہلکاروں نے شاہد کی جیب میں دو ہزار روپے ڈالے اور اسے گھر بھیج دیا۔
شاہد نے نمائندہ امت کو بتایا کہ ’’مجھے رکشہ چلاتے ہوئے 12 برس ہو گئے ہیں۔ میں نے جل جانے والا رکشہ ساز گار کمپنی سے 2010ء میں 80 ہزار روپے میں خریدا تھا، جس کو مسلسل 8 برس سے چلارہا تھا۔ اس سے قبل میں رامسوامی مارکیٹ میں ایک ورکشاپ میں کاریگر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ ورکشاپ میں پرزے بنانے والی مشین کے کاریگر ہونے کی وجہ سے میری قدرے بہتر آمدنی تھی۔ تاہم وہ نوکری بھی چھوٹ گئی۔ اس کے بعد میں نے رکشہ چلانا شروع کر دیا تھا۔ میری رہائش لیاقت آباد نمبر7، غوثیہ مسجد والی گلی میں ہے، جہاں میں تیسری منزل کے ایک کمرے میں اپنے 5 بچوں سمیت رہ رہا ہوں۔ اس ایک کمرے کے مکان کا کرایہ 7 ہزار روپے ہے۔ جبکہ میں نے دو ماہ کا کرایہ ادا نہیں کیا ہے۔ مالک مکان روز کرایہ مانگتا ہے۔ جبکہ میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی نہ کسی طرح بچت ہو اور پیسے جمع کرکے کرایہ ادا کروں۔ مگر مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ جو روز کماتا ہوں، اس سے بمشکل کچن چل پاتا ہے‘‘۔ 34 سالہ شاہد کا کہنا تھا کہ اس کے 5 بچے ہیں، جن میں سے 2 بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں۔ ایک بیٹی اور اس سے چھوٹے 2 بیٹوں کو رات کے وقت نظر نہیں آتا۔ دن میں بھی وہ مشکل سے دیکھ سکتے ہیں۔ بچوں کو علاج کیلئے کورنگی آئی اسپتال میں بھی لے جاچکا ہوں، مگر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس وقت ان کا علاج بیت المکرم مسجد کے سامنے المصطفیٰ گلشن اقبال اسپتال سے علاج ہو رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے بڑی بیٹی کو جس کی عمر 9 سال ہے، اب تک اسکول نہیں بھیج سکا۔ اب اسے اس کی نانی اپنے گھر لے گئی ہیں اور وہیں سے اسے اسکول بھی بھیجا جاتا ہے۔ شاہد کے بقول وہ 5 بھائی ہیں اور سارے الگ الگ رہتے ہیں۔ بھائیوں کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں کہ وہ اس کی مدد کر سکیں۔ دو بھائی نیو کراچی میں اور دو لالو کھیت میں ہی رہتے ہیں۔ ایک سوال پر شاہد کا کہنا تھا کہ ’’مجھے جمعہ کی صبح ایک حاجی صاحب کی کال آئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرا ڈرائیور آرہا ہے، اس کے ساتھ جاکر رکشہ خرید لو۔ اس کے بعد ایک ڈرائیور آیا اور اس نے مجھے پٹیل پاڑہ سے سوا دو لاکھ کا نیا رکشہ دلا دیا ہے۔ جبکہ پرانا رکشہ جو جل چکا ہے، پولیس والوں نے کہا تھا کہ ہم بنا کر دیں گے۔ اگر انہوں نے بنا دیا تو اس کو فروخت کرکے مزید گھر کا کرایہ دے سکوں گا۔
واضح رہے کہ چار روز قبل شارع فیصل پر ایک رکشہ ڈرائیور نے روز روز کے چالان سے تنگ آکر خود کو آگ لگالی تھی۔ اسے زخمی حالت میں سول اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ دوران علاج چل بسا تھا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More