محمد زبیر خان
سی ڈی اے حکام بنی گالہ میں وزیراعظم عمران خان کے محل نما گھر سمیت دیگر عالمی شان بنگلوں کو جائز قرار دلوانے کیلئے کم سے کم جرمانہ 100 روپے فٹ عائد کر رہی ہیں۔ دوسری جانب بنی گالہ کے وہ رہائشی جن کے مکانات ناجائز قرار دیکر مسمار کردیئے گئے ہیں، وہ شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے۔ ماہرین ماحولیات اور وکلا کا کہنا ہے کہ بنی گالا میں غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کو جائز قرار دینے سے ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ جبکہ مستقبل میں سرکاری اراضی پر قبضوں اور غیر قانونی تعمیرات کی راہ ہموار کی جائے گی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بنی گالہ اسلام آباد میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے کیس میں قرار دیا تھا کہ عمران خان تجاوزات کے حوالے سے جرمانے اور عائد کردہ فیس جمع کروا کر اس کو جائز کرائیں۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سی ڈی اے نے بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ سمیت دیگر گھروں پر اپنے شیڈول میں کم سے کم جرمانے عائد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ سی ڈی اے آئندہ چند دنوں میں نوٹسز جاری کر دے گا کہ عمران خان عائد کردہ جرمانہ ادا کریں اور ایسا ہی نوٹس دوسروں کو بھی جاری کیا جائے گا اور یہ سی ڈی اے کے شیڈول میں کم سے کم جرمانہ ہوگا۔ سی ڈی اے ذرائع کے مطابق ابھی تک یہ طے تو نہیں ہوا کہ کتنا جرمانہ ہوگا، تاہم ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سی ڈی اے حکام نے کم از کم جرمانہ 100 روپے فٹ تجویز کیا ہے اور آئندہ ہفتے میں اس کا باقاعدہ نوٹس جاری کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بنی گالہ، اسلام آباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں ناجائز تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے، جس میں درجنوں عمارتوں کو منہدم کیا جاچکا ہے۔ تاہم بنی گالا میں ناجائز تعمیرات کو صرف جرمانہ یا فیس کی ادائیگی پر قانونی قرار دینے کے اقدام پر ایسے متاثرین نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے، جن کے گھر، دکانیں اور دیگر تعمیرات گرادی گئی ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کی بنی گالا میں واقع نجی رہائش گاہ کو جرمانہ یا فیس ادا کرکے باضابطہ بنانے کا حکم دیا، لیکن باقی کئی علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کو فوراً گرانے کا حکم بھی دیا۔ اس پر بعض عوامی حلقوں کو اعتراض ہے۔ وہ اسے دوہرا معیار اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی نفی سمجھتے ہیں۔ شہر کی مصروف شاہراہ کشمیر ہائی وے پر حالیہ کارروائی کی منصوبہ بندی سی ڈی اے اس سال کے اوائل سے کر رہا تھا۔ اس کی ایک وجہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک حکم بھی تھا۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد اس کارروائی میں تیزی دیکھی جارہی ہے۔ درجنوں شادی ہال اور نجی مکانات اس مہم کی زد میں آچکے ہیں۔ تازہ کارروائی بنی گالہ کے اہم علاقے میں جاری ہے، جس پر متاثرین کو مناسب نوٹس اور وقت نہ دینے کی شکایات ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ ان تحصیلداروں، پٹوریوں اور سی ڈی اے حکام کیخلاف بھی کارروائی کی جائے۔ کیونکہ جب اراضی کا سودا اور انتقال ہوا تو اس وقت یہ حکام کہاں سو رہے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کے معاملے میں امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔ جرمانہ ادا کرکے عمران خان کے گھر کو ریگولرائز کرنے کی بات کی جارہی ہے اور دیگر کے سروں سے چھت چھینی جا رہی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بنی گالہ میں ایک بیوہ کے گرائے جانے والے مکان کے نگران راشد خان کہتے ہیں: ’’ہم نے سات کروڑ روپے میں یہ مکان خریدا تھا، لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں، اسے ناقابل استعمال بنادیا گیا ہے۔ ہمارے پاس تو منتقلی کے کاغذات ہیں، پھر بھی وقت نہیں دیا گیا۔ یہ سب چوری چھپے تو نہیں کیا۔ پکڑنا ہے تو پھر پٹواری اور تحصیلدار کو بھی پکڑو۔ ایک ہمارا مکان گرا دیا، لیکن دو ساتھ کے چھوڑ دیئے‘‘۔
واضح رہے کہ سی ڈی اے کے 27 اپریل 1980ء کے ایک اعلامیے کے مطابق وفاقی حکومت نے اسلام آباد کی میونسپل حدود میں تمام علاقے کو جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا تھا۔ ان علاقوں میں شکار کو بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سال اپریل میں بنی گالہ اور سیکٹر ای 11 میں تعمیرات کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دیکر ان کی ریگولرائزیشن کی شدید مخالفت کی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے اپنے اپریل 2018ء کے فیصلے میں سوال اٹھایا تھا کہ اگر بنی گالہ میں تعمیرات کو باضابطہ بنانے کا ارادہ ہے تو پھر باقی ماندہ اسلام آباد میں اس قسم کی دیگر آبادیوں کے بارے میں کیا کیا جائے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ بنی گالہ، شاہدرہ، بری امام اور بارہ کہو میں سیوریج یا گھروں کا فضلہ اور دیگر گند راول جھیل کے پانی کو زہریلا بنا رہا ہے، جہاں سے راولپنڈی کو پینے کا پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سملی جھیل جو اسلام آباد کو پانی مہیا کرتی ہے، اس میں مری اور مری ایکسپریس وے پر تعمیر کی گئی نئی کالونیوں کا سیوریج ڈالنے کی وجہ سے پانی پینے کے لائق نہیں رہا ہے۔ 1960ء میں تیار کئے گئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں بنی گالہ کو ماحولیات کے اعتبار سے حساس قرار دیا گیا تھا۔ پلان کی تیاری کے وقت اسے کورنگ دریا اور راول جھیل کا کیچمنٹ ایریا ہونے کی وجہ سے نیشنل پارک قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 2007ء میں ایک فیصلے کے تحت بنی گالہ کے کچھ رقبے پر نجی اسکیم کی اجازت دی تھی، تاہم ماسٹر پلان میں ان ترامیم کے علاوہ کسی نرمی کی اجازت نہیں دی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا استفسار تھا کہ یہ شہر کوئی عام شہر نہیں ہے۔ یہ دارالحکومت ہے جس میں ہر شہری کا حصہ ہے۔ ماسٹر پلان اس قوم کا اثاثہ تھا تو کیا کسی مراعات یافتہ شخص کو ماسٹر پلان کو نقصان پہنچانے کا فائدہ دیا جانا چاہیے؟ مستقبل کے ماحولیاتی نقصانات کا جائزہ لیے بغیر کیا کوئی غیرقانونی تعمیرات باضابطہ بنائی جانی چاہیے؟۔
بنی گالہ کے قریب اور نواح میں ایسے افراد نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے جن کی تعمیرات کو ناجائز قرار دیکر گرا دیا گیا ہے۔ ارشد نامی شخص کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہوا اور عمران خان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہو رہا ہے۔ ایک اور شہری کا کہنا تھا کہ اب تو ایسا ہوگا کہ جو با اثر ہوگا وہ جو چاہے گا کرے گا۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں ماہر قانون ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں حکام نے کسی کوئی ناجائز ریلیف دینا ہوتا ہے تو جرمانہ عائد کرکے اس کو جائز قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہی غیر قانونی تعمیرات ملک کے ماحول کو تباہ کررہی ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی غیر قانونی تعمیرات کو جرمانے عائد کرنے کے بعد قانونی قرار نہیں دیا جاتا بلکہ اس کو مسمار کرنے کے ساتھ انہدام کا خرچہ بھی وصول کیا جاتا ہے۔ ماہر ماحولیات نعمان رشید نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایسی تعمیرات جو جائز نہ ہوں اور جن سے ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہو، ان کو قانونی قرار دینے سے اسلام آباد کا ماحول تباہ ہوجائے گا اور اس کا براہ راست نقصاں عوام کو اٹھانا پڑے گا۔
اس حوالے سے موقف لینے کیلئے ’’امت‘‘ نے سی ڈی اے کے شعبہ تعلقات عامہ اور بلڈنگ ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کیا، لیکن کسی بھی ذمہ دار نے موقف نہیں دیا۔ تاہم عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ عمران خان کا مکان گیم یا ریزور ایریا میں نہیں اور نہ یہ بنی گالہ کے علاقے میں ہے، بلکہ یہ موضع موڑا نور میں ہے، جو نیشنل پارک سے باہر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے دو پیراگراف میں ترمیم کیلئے نظرثانی کی پٹیشن تیار کر لی ہے، جو جلد سپریم کورٹ میں دائر کردی جائے گی۔ اس سوال کے جواب میں کہ سپریم کورٹ نے تو ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کی تھی؟ ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے لکھا کہ ان کی اس وقت ’معاونت‘ نہیں کی گئی تھی۔ بابر اعوان کے بقول سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کی تجویز کہ ماسٹر پلان کے ازسرنو جائزے کیلئے کمیشن بنانا ایک طویل کام ہے، اس کیلئے ماہرین کہاں سے لائے جائیں گے اور پیسے کون دے گا۔ لہذا ان دو پیراگراف میں ترمیم کیلئے پٹیشن دائر کی جائے گی۔ بابر اعوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’میرے موکل کا مکان نجی اراضی پر بنا ہوا ہے اور ایکوایڈ لینڈ پر نہیں ہے۔ سی ڈی اے نے ہمیں نوٹس جاری کر دیا ہے اور ہم نے اس کو باضابطہ بنانے کیلئے درخواست دے دی ہے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ادارہ کیا فیس مقرر کرتا ہے، لیکن ہم وہ دینے کو تیار ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا تین بیڈ کا چھوٹا سا گھر ہے۔ ایک مسجد ہے اور ایک انیکسی ہے، جس میں ملازمین کیلئے رہائش ہے۔
٭٭٭٭٭