پاکستان میں میٹھے پانی کے کچھوے معدوم ہونے کا خطرہ

0

عظمت علی رحمانی
پاکستان سے سالانہ ہزاروں کچھووں کی اسمگلنگ کے سبب میٹھے پانی کے کچھووں کی نسل معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔ بیرونی ممالک میں زندہ کچھوا 1500 ڈالر جبکہ اس کا گوشت 380 ڈالر فی کلو فروخت ہوتا ہے۔ چین اور ویتنام سب سے بڑے خریدار ہیں۔ رواں برس کچھووں کی اسمگلنگ کی تیسری کوشش ناکام بناتے ہوئے گزشتہ روز میٹھے پانی کے کچھووں کا 150 کلو خشک گوشت قبضے میں لیا گیا۔ 9 لاکھ امریکی ڈالر مالیت کے کچھوے اور پینگولین کے خول برآمد کرنے کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔
واضح رہے کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے، اپنے جغرافیہ اور موسمی حالات کی وجہ سے پاکستان کو 11 جغرافیائی، 10 زرعی ماحولیاتی اور 9 بڑے ماحولیاتی زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام میں جانداروں کی وسیع انواع موجود ہیں۔ یہاں ممالیہ کی 174 انواع، پرندوں کی 666 انواع، 177 رینگنے والے جانداروں کی اقسام اور جل تھلیوں (یا ایمفی بینس) کی 22 ایسی اقسام پائی جاتی ہیں جو پانی اور خشکی دونوں پر چلتی ہیں۔ پاکستان میں میٹھے پانی کے کچھوے کی 8 اقسام اور سمندری (نمکین پانی) کچھوے کی تین اقسام پائی جاتی ہیں۔ ماہرین کے بقول جس طرح گدھ کو فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے، جو مردہ اجسام کو کھا کر زمین کو صاف رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ کچھوے یہی کام پانی میں سر انجام دیتے ہیں اور پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اب ان کچھوؤں کی آبادی میں تیزی سے کمی ہورہی ہے، جس کی وجہ سے پچھلے 10 سے 15 برسوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔
پاکستان سے کچھووں کی بیرون ملک اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے کئی قوانین منظور کئے جاچکے ہیں۔ تاہم ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے کچھووں کی اسمگلنگ مسلسل جاری ہے۔ جانوروں کے تحفظ کیلئے قائم محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق کچھووں کی پہلی کھیپ 1998ء میں کراچی ایئرپورٹ سے پکڑی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ وائلڈ لائف اور کسٹم حکام کی ملی بھگت کے بغیر نایاب جانوروں کی اسمگلنگ ممکن ہی نہیں ہے۔ پاکستان سے گزشتہ 20 برس میں 171 من سے زائد کچھووں کا گوشت اور 6 ہزار 508 کچھوے اسمگل کرنے کی کوششیں ناکام بنائی گئی ہیں۔ ماہرین کے بقول کچھووں کی نسل کشی سے پانی میں نیگلیریا سمیت دیگر بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق عالمی مارکیٹ میں کچھوے کے گوشت کی بہت مانگ ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کے مطابق کچھوے کا گوشت کھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے انڈوں کے خول سے زیورات اور آرائشی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ جبکہ اس کے جسم کے مختلف حصے قوت بخش ادویات کی تیاری میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک زندہ کچھوے کی قیمت 1500 ڈالر ہے۔ جبکہ مقامی طور پر ایک کچھوا 15 ڈالر میں بکتا ہے۔ جس کے بعد تمام متعلقہ سرکاری حکام کو ان کا حصہ دینے میں 20 سے 25 ہزار روپے لگتے ہیں۔ تاہم یہ قیمت آگے جا کر کئی گنا اضافے سے وصول ہوجاتی ہے۔ چنانچہ کچھووں کی اسمگلنگ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ کچھوے کے گوشت کی بیرون ملک فی کلو قیمت 340 سے 380 ڈالر تک ہے۔ کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت میں نیپال، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا اور ویتنام وغیرہ سرفہرست ہیں۔ ذرائع کے بقول پنجاب میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ زیادہ فعال نہیں ہے، جس کی وجہ سے پنجاب خاص طور پر تونسہ سے کچھوے بآسانی پورے ملک میں اور بیرون ملک اسمگل ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ 1972ء سے 1974ء کے دوران ایکٹ برائے تحفظ جنگلی حیات سندھ، پنجاب اور خیبر پختون میں نافذ کیے گئے تھے، جس کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنایا جانا تھا۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس 1972ء کے سیکشن (2) 12 کے مطابق کچھووں یا دیگر جنگلی جانوروں کی تجارت پر مکمل پابندی ہے۔ خلاف ورزی پر ایک یا دو سال کی سزا بمعہ جرمانہ ہے۔ جبکہ غیر قانونی طور پر کچھووں کو رکھنے کا جرمانہ 80 ہزار روپے ہے۔ اگر 200 کچھوے پکڑے گئے تو ہر کچھوے کا الگ 80 ہزار ہرجانہ وصول کیا جائے گا۔ دوسری جانب اپریل 2015ء میں سندھ ہائیکورٹ نے بھی جنگلی حیات اور کچھووں کی اسمگلنگ کے حوالے سے اہم فیصلہ دیا تھا، جس میں واضح طور پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ذمے دار ٹھہرا کر کچھووں کی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کے خلاف قرار واقعی اقدامات کا حکم دیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی 1200 کلومیٹر ہے، جس میں سے بمشکل 50 سے 60 کلومیٹر علاقہ کچھووں کی افزائش کیلئے موزوں ہے۔ لیکن اب ساحل پر ہونے والی تعمیرات کے باعث کچھوے اس سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ ہاکس بے پر ایک ہٹ بننے سے 200 مادہ کچھوے انڈے دینے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ تیزی سے ہونے والی تعمیرات کے باعث کچھوؤں کی افزائش کی جگہ (نیسٹنگ سائٹس) کم ہورہی ہیں۔ مناسب نیسٹنگ سائٹس نہ ہونے کی وجہ سے مادہ کچھوے غیر محفوط جگہوں پر انڈے دیتی ہیں، جہاں وہ عموماً کتے بلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان بھی انڈوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جولائی سے دسمبر کچھووں کے انڈوں دینے اور ان انڈوں سے بچے نکلنے کا موسم ہے۔ لیکن کلائمٹ چینج کی وجہ سے مون سون کے سیزن میں تبدیلی آئی ہے تو کچھووں کا نیسٹنگ سیزن میں بھی بدل گیا۔ بعض اوقات سمندری کچھوے کشتیوں سے بھی ٹکرا کر مر جاتے ہیں اور سمندر میں بچھائے جانے والے جال میں بھی پھنس جاتے ہیں۔ بعض دفعہ مچھیرے انہیں جال سے نکال کر واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں اور کبھی یہ ماہی گیروں کی بستیوں میں تفریح کا سامان بن جاتے ہیں۔ کچھوؤں کو ہر تھوڑی دیر بعد سطح سمندر پر آکر سانس لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن ماہی گیروں کے جال کی وجہ سے وہ اوپر نہیں آپاتے اور یوں زیر آب موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
سندھ کا محکمہ جنگلی حیات 1979ء سے جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیموں ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این کے ساتھ مل کر کچھووں کے تحفظ کیلئے مختلف پروجیکٹس پر کام کررہا ہے۔ ان پروجیکٹس کے تحت اب تک 4 لاکھ کچھووں کے بچوں کو سمندر میں چھوڑا جاچکا ہے۔ ایک اور پروجیکٹ کے تحت کچھووں کے انڈوں کو لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے اور وہاں بحفاظت ان کی سکائی کی جاتی ہے۔2014ء سے اب تک 700 سے 800 زندہ کچھووں کو اسمگل ہونے سے روکا جا چکا ہے۔
گزشتہ روز کراچی کھڈا مارکیٹ سے کچھوے کا 150 کلو گوشت اور 20 کلوگرام پنگولین کے خول قبضے میں لئے گئے تھے۔ اس گوشت اور خول کی مجموعی قیمت 9 لاکھ امریکی ڈالر بنتی ہے۔ اس قیمتی مال کو بوری میں ڈال کر لاوارث چھوڑ جانے کی بات پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے ‘‘امت‘‘ کو سندھ وائلڈ لائف کے کنررویٹر تاج محمد شیخ نے بتایا کہ ’’ہماری ٹیم کو اطلاع ملی تھی کہ کھڈا مارکیٹ کی کار پارکنگ میں بوری میں کچھ سامان رکھا ہے۔ ہمارے لوگ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ بوری میں نایاب کچھووں کا گوشت، پنگولین کے خول اور کچھوے کے خول ہیں۔ جن کو قبضے میں لیکر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں بتایا کہ چند روز بعد اس گوشت اور خول کو آگ لگاکر تلف کردیں گے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More