اقبال اعوان
کراچی میں انصاف سے محروم پریشان حال شہریوں، نجی اور سرکاری اداروں کے ملازمین نے چیف جسٹس پاکستان سے امیدیں لگالیں ہیں۔ کراچی میں چیف جسٹس کی آمد کے دوران سیکڑوں پریشان حال مرد اور خواتین سپریم کورٹ رجسٹری آفس کے باہر درخواستیں لے کر اکھٹا ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر باقاعدہ شکایتی سیل بنوایا ہے جہاں عام دنوں میں بھی یومیہ درجنوں پریشان حال لوگ درخواستیں جمع کراتے ہیں۔ تاہم جس دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کراچی تشریف لاتے ہیں، اس دوران سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر حصول انصاف کے متمنی غریب لوگوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ نظر آتا ہے۔
ہفتے کے روز بھی یہاں سینکڑوں شہری موجود تھے، شکایت سیل کا عملہ لوگوں کی درخواستیں جمع کر رہا تھا۔ وہاں لمبی قطار لگی تھی، اکثریت خواتین کی تھی۔ اس موقع پر وہاں موجود ایک شہری محمد علی عمرانی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل کراچی کے اہلکاروں کے ہاتھوں اس کا بھائی اسد عمرانی جعلی مقابلے میں قتل ہوا تھا۔ اب پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کو بچا رہی ہے۔ منگھوپیر تھانے میں یہ مقدمہ درج ہے جبکہ ملوث افسران و اہلکار اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ اس کا بھائی بھٹو گروپ کا سرگرم رہنما تھا۔ اسے رقم کیلئے یا سیاسی سازش کے تحت جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ وہ حصول انصاف کیلئے در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا ہے۔ اب چیف جسٹس سے انصاف کی امید لگا کر ادھر آیا ہے۔ وہاں موجود رفیق عمرانی کا کہنا تھا کہ آج تو وزیراعلیٰ سندھ بھی اپنے اسٹاف کے ساتھ متاثرین کے پاس آئے تھے اور ان سے درخواستیں جمع کیں۔ تاہم عوام کو سندھ حکومت سے حصول انصاف کی توقع نہیں، عوام اب چیف جسٹس سے امید لگا کر ادھر آتے ہیں۔ وہاں نیشنل بینک آف پاکستان کے ملازمین بھی بینرز لگائے کھڑے تھے۔ ایک ملازم امام بخش کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے انصاف مانگتے ہیں کہ نیشنل بینک کے مظلوم آئوٹ سورس ملازمین کو ریگولر کروائیں۔ پاکستان بھر میں ان کی تعداد 7 ہزار ہے، جبکہ 2700 ملازمین کو ریگولر کرنے کی کارروائی 6 ماہ قبل شروع ہوئی تھی۔ لیکن فہرستیں روک دی گئیں۔ چیف جسٹس صاحب اس مسئلے کو حل کرائیں۔ وہاں ایک ٹانگ سے محروم نوجوان محمد فرخ صدیقی بھی موجود تھا جو وہیل چیئر پر بیٹھا بینر اٹھائے ہوئے تھے۔ اس کی بہنوں کا کہنا تھا کہ یہ گھر کا واحد کفیل ہے۔ والد کے انتقال کے بعد یہ والدہ، 5 بہنوں، بیوی، بچی کی کفالت کرتا ہے۔ گزشتہ ماہ 22 ستمبر کو اس کا ایکسیڈنٹ ہوا، اس کو گلشن اقبال میں واقع صمدانی اسپتال میں لے کر گئے، جہاں ڈاکٹروں نے تین دن رکھا۔ آپریشن کر کے زخمی ٹانگ میں راڈ ڈالی گئی اور ٹانگ خراب ہونے پر ٹراما سینٹر بھیجا گیا، جہاں بتایا گیا کہ ڈاکٹروں کی غفلت سے ٹانگ میں زہر پھیل چکا ہے اور دائیں ٹانگ اوپر تک کاٹ دی گئی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اس کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ لیکن گلشن اقبال پولیس، صمدانی اسپتال کے خلاف مقدمہ درج نہیں کر رہی ہے۔ چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ نجی اسپتالوں کے ان قصائی ڈاکٹروں کے خلاف آپریشن آپریشن کرایا جائے اور ان کو انصاف دلایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ شکایت سیل میں درخواست جمع کرا دی ہے۔ سپریم کورٹ رجسٹری آفس کے باہر شیل کمپنی کے ملازمین بھی بینرز اٹھائے موجود تھے کہ چیف جسٹس ان کو انصاف دلاائیں۔ وہاں موجود رفیق کا کہنا تھا کہ 16 اکتوبر 2018ء کو شیل کے ہیڈ آفس کراچی سے کمپنی والوں نے ملازمین کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ انہوں نے کورٹ سے اسٹے لے لیا تھا، اس کے باوجود کئی کئی سال پرانے ملازمین کو نکالا جا رہا ہے۔ جبری بے روزگار کرنے کا یہ سلسلہ ختم کرایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جبری بے روزگار کرنے پر دل کا دورہ پڑنے سے ان کا ساتھی شہزاد وفات پا چکا ہے۔ یہاں سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کراچی کے نوکری سے نکالے گئے ملازمین بھی احتجاج کرتے نظر آئے۔ ایک ملازم شمس الدین کا کہنا تھا کہ وہ 23 سال سے نوکری کر رہے تھے، ان کو نکال دیا گیا۔ بلکہ اس کے چار بچوں کو بھی یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے، ان کا تعلیمی مستقبل خراب ہو رہا ہے۔ ان کا قصور یہ ہے کہ پرنسپل سے وائس چانسلر بننے والے محمد علی شیخ کے خلاف آواز بلند کی تھی، جو ملازمین سے بدتمیزی اور مارپیٹ کرتے ہیں۔ من پسند لوگوں کو بھرتی کر کے اس سمیت 113 ملازمین کو نوکری سے نکالا گیا۔ وہ لوگ انصاف کیلئے ہر دروازے پر گئے، مایوس ہو کر آخری امید لے کر چیف جسٹس کے پاس آئے ہیں۔ گوورمنٹ چلڈرن اسپتال نارتھ کراچی کے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے لوگ بھی پلے کارڈ اٹھائے احتجاج کرتے نظر آئے۔ ڈاکٹر گلاب کا کہنا تھا کہ اسپتال کا انتظام دو نجی این جی اوز PEI، SGCH کے حوالے کر دیا گیا ہے، یہاں پر موجود 400 اسٹاف کو گزشتہ 3 ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں۔ ان کا چیف جسٹس سے مطالبہ ہے کہ تنخواہیں دلانے کیلئے احکامات جاری کئے جائیں۔ وہاں موجود عدیل احمد قریشی کا کہنا ہے کہ وہ جنوری 2012ء میں ایس ایس یو پولیس میں بھرتی ہوا تھا۔ 2015ء میں اس سمیت 46 اہلکاروں کو کہا گیا کہ دوبارہ تعلیمی ٹیسٹ دو اور 20 کو بحال کیا گیا جبکہ اس سمیت 26 کو برطرف کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ رجسٹری کے سامنے فٹ پاتھ پر بینر لگائے کچھ خواتین انصاف چاہئے کی دہائی دے رہی تھیں۔ ان کے ساتھ موجود غلام محمد نامی نوجوان کا کہنا تھا کہ میرے بہنوئی وحید احمد کلہوڑو نے اپنی بیوی فہمیدہ پر کاروکاری کا الزام لگا کر اس کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم وہ فائرنگ سے زخمی ہوئی اور ماں باپ کے گھر آ گئی۔ اب اس کا بہنوئی جو ڈی ایس پی اینٹی کرپشن ہے اور صدر کراچی میں تعینات ہے، وہ اب بھی اس کی بہن کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ کاری کی سزا صرف موت ہے۔ وہ چیف جسٹس کے پاس انصاف کیلئے آئے ہیں۔ ان کو انصاف دلایا جائے اور بہنوئی کے خلاف کارروائی کر کے ان کی بہن کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ وہاں کورنگی مہران ٹائون میں تجاوزات کے آپریشن کے دوران گرائے جانے والے گھروں کی مکین خواتین بھی احتجاج کر رہی تھیں۔ ایک نوجوان شیراز کا کہنا تھا کہ سرکاری افسران اور پولیس کی ملی بھگت سے ان کے گھر گرائے گئے۔ جب وہ بھاری رقم جمع کر کے گھر بنا رہے تھے تو اس دوران منع نہیں کیا گیا تھا۔ یوسف علی نامی شخص بینر اٹھائے موجود تھا کہ اس کے مکان پر پولیس افسران نے قبضہ کر رکھا ہے، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ رابعہ نامی خاتون اپنے بھائی راول کی رہائی کیلئے بینر اٹھائے موجود تھی۔ لانڈھی کے رہائشی شرین خان کا کہنا تھا کہ 20 سال تک کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن میں کام کیا تھا اب EOBI کی پنشن مل رہی ہے، 65 سال کی عمر ہونے پر کام نہیں کر سکتا۔ حکومت پنشن بڑھانے کا کہ رہی ہے تاہم دو سال سے بڑھائی نہیں گئی۔ گل خان نامی نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ سعودی عرب سے نوکری چھوڑ کر آیا ہے، اس کے والد محمد یوسف کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کو انصاف دلایا جائے۔
٭٭٭٭٭