جعلی ادویات سپلائی کرنے والی کمپنی کیخلاف تحقیقات دبانے کی کوشش

0

عمران خان
محکمہ صحت سندھ کے ماتحت کوالٹی کنٹرول بورڈ حکام کی جانب سے جعلی ادویات سپلائی کرنے والی کمپنی کے خلاف حتمی کارروائی میں تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے تحقیقات کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوالٹی کنٹرول بورڈ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود کمپنی ایورسٹ فارما کیخلاف مقدمات کے اندراج کی منظوری نہیں دے رہا۔ کمپنی سے کروڑوں روپے کی جعلی ادویات خریدنے والے محکمہ سندھ کے افسران کو بھی کارروائی سے بچانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس صورت حال میں کوالٹی کنٹرول بورڈ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے، جس نے روزنامچے مقدمات میں تبدیل بھی نہیں کئے۔
رواں برس کے آغاز میں ایورسٹ فارما نامی کمپنی سے خریدا گیا ادویات کا اسٹاک جعلی ثابت ہونے پر محکمہ صحت سندھ کے ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے تحت کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں وقت گزرنے کے ساتھ کارروائی کو آگے بڑھانے کے بجائے تحقیقات کی رفتار سست کر دی گئی۔ کمپنی سے خریدی گئی 37 ادویات کے ذخیرے گزشتہ کئی ماہ سے سرکاری گوداموں اور سرکاری اسپتالوں کے اسٹور میں ’’سیل‘‘ پڑے ہیں، جبکہ کمپنی کے خلاف کراچی سمیت سندھ کے 29 اضلاع کے تین درجن سے زائد تھانوں میں جو ’’نان کاک‘‘ رپورٹس یعنی روزنامچے کٹوائے گئے تھے، ان کو بنیاد بنا کر آج تک نہ تو تھانوں میں مقدمات درج کئے گئے اور نہ ہی محکمہ صحت سندھ کے ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے کوالٹی کنٹرول بورڈ نے ڈرگ انسپکٹرز کو کمپنی کے خلاف مقدمات درج کرنے کی اجازت دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپنی سے محکمہ صحت سندھ کے حکام کی جانب سے خریدے گئے اسٹاک کے نمونوں کو لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا گیا تھا جہاں سے یہ جعلی ثابت ہوئے۔ اگلے مرحلے میں کوالٹی کنٹرول بورڈ نے اس کمپنی کے خلاف مقدمات قائم کرنے کیلئے منظوری دینی تھی۔ تاہم اس اہم کیس کی فائل کوالٹی کنٹرول بورڈ کے ریکارڈ میں دبی ہوئی ہے۔ جبکہ رواں برس کے آغاز میں جب کمپنی کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا تھا اس کے بعد سے لے کر اب تک کوالٹی کنٹرول بورڈ کی متعدد میٹنگز ہوچکی ہیں تاہم ان میٹنگز میں ایورسٹ فارما سے جعلی ادویات کی خریداری کے معاملے کو زیر غور لایا ہی نہیں گیا۔
ذرائع کے مطابق کوالٹی کنٹرول بورڈ کا کردار گزشتہ کئی ماہ سے انتہائی مشکوک ہے، کیونکہ کراچی سمیت سندھ بھر میں جعلی ادویات کا دھندا عروج پر ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر ڈرگ انسپکٹرز کی جانب سے کوالٹی کنٹرول بورڈ میں درجنوں تحریری شکایات جمع کروائی جاچکی ہیں تاکہ بورڈ کے ذریعے جعلی اور مضر صحت ادویات کے دھندے میں ملوث کمپنیوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جاسکیں لیکن بورڈ کی جانب سے اب تک کسی کمپنی، ڈیلر اور جعلی ادویات تیار کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی منظوری نہیں دی گئی ہے۔
ذرائع کے بقول ایورسٹ فارما سے یہ ادویات صوبائی وزارت صحت سندھ کے حکام کی جانب سے مالی سال 17-2018 کے بجٹ سے خریدی گئی تھیں۔ سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں غریب مریضوں کیلئے فراہم کردہ یہ ادویات محکمہ صحت سندھ کی جانب سے ادویات کی خریداری کیلئے دیئے گئے ٹینڈرز کے ذریعے حاصل کی گئیں جس میں ایورسٹ فارما کمپنی کو دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں فوقیت دی گئی تھی۔ ایورسٹ فارما کمپنی کی مرکزی دفتر اسلام آباد میں قائم ہے جس کے 37 آئٹم متبادل ادویات کے فارمولوں کی حیثیت سے سندھ حکومت کی جانب سے خریدے گئے۔ ذرائع کے بقول جس وقت یہ خریداری کی گئی اس وقت بھی ایورسٹ فارما سوٹیکل کمپنی کی ساکھ اچھی نہیں تھی کیونکہ وفاقی ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی میں اس کمپنی کے حوالے سے بہت سی شکایات موجود تھیں اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے افسران بھی اس کمپنی کے کرتوتوں سے باخبر تھے۔ تاہم اس کے باوجود صوبائی سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو اور ان کے قریبی افسر فرحان بلوچ کی منظوری سے مذکورہ کمپنی سے اتنی بھاری مقدار میں ادویات کی خریدی گئیں۔
ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے ذرائع کے مطابق صوبائی محکمہ صحت کے حکام کو اس وقت ہوش آیا اور انہوں نے خود کو بچانے کی کوششیں شروع کیں جب رواں برس فروری میں اویورسٹ فارما نامی کمپنی کے خلاف ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سپریم کورٹ پہنچ گئی۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کے حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایورسٹ فارما کے مالک چوہدری عثمان سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب قرار پائے ہیں اور بااثر ہونے کی وجہ سے ڈریپ کے افسران کو خاطر میں نہیں لاتے جس پر سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس لیا گیا اور نہ صرف اس کمپنی کو سیل کیا گیا بلکہ ان ادویات کے لیبارٹری ٹیسٹ کروائے گئے، جس میں ادویات غیر قانونی اور غیر معیاری ثابت ہوئیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے احکامات پر کمپنی کے مالک چوہدری عثمان کو 6 مارچ کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔ چونکہ اس وقت تک سندھ حکومت کے حکام اس کمپنی سے کروڑوں روپے کی ادویات خرید چکے تھے اس لئے خود کو بچانے کیلئے صوبائی ڈرگ انسپکٹرز کو استعال کرکے سندھ کے تمام 29 اضلاع میں 26 ڈرگ انسپکٹرز کے ذریعے 40 سے زائد سرکاری اسپتالوں سے ایورسٹ فارما کی فراہم کردہ ادویات کے نمونے اٹھوائے گئے اور انہیں جانچ پڑتال کیلئے لیبارٹری بھجوادیا گیا جہاں سے معلوم ہوا کہ 37 ادویات کے نمونوں میں سے زیادہ تر غیر رجسٹرڈ یا غیر قانونی نکلے۔ جبکہ باقی غیر معیاری ثابت ہوئے، جس کے بعد یہ اسٹاک سیل کردیا گیا۔
اس ضمن میں جب امت کی جانب سے صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر قیصر سے رابطہ کیا گیا توانہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔ ذرائع کے بقول اس پورے معاملے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیس محکمہ صحت سندھ کی جانب سے کمپنی کے خلاف کٹوائے گئے روزنامچوں کو مقدمات میں تبدیل کرنے سے انکار کرچکی ہے اور معاملے کو ایف آئی اے کے سپرد بھی نہیں کیا گیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More