امت رپورٹ
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اتوار کو ملاقات کی اور انہیں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ لیکن نواز شریف نے انہیں آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی یقین دہانی نہیں کرائی، بلکہ مولانا کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ لیگی قیادت نے مولانا فضل الرحمان سے کہا ہے کہ وہ اے پی سی میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد کی پیپلز پارٹی سے یقین دہانی حاصل کریں۔ پہلے بھی پی پی نے اپوزیشن جماعتوں کے متفقہ فیصلوں کے برعکس اقدام اٹھائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے نواز لیگ تیار ہے، لیکن فوراً نہیں۔ لیگی قیادت پی ٹی آئی حکومت کو مزید بحرانوں میں پھنسنا دیکھنا چاہتی ہے۔ اور اگر تحریک چلائی بھی گئی تو اس کی باگ ڈور نہ وہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں دینا چاہتی ہے اور نہ ہی مولانا فضل الرحمن کو نیا نوابزادہ نصراللہ بنانا چاہتی ہے۔
لیگی ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی پر بالکل بھی اعتماد نہیں رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں اسی بداعتمادی کو دور کرنے کے لیے آصف زرداری اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ داخل ہوئے، جو اس سے قبل اسمبلی میں موجود ہونے کے باوجود ان سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے۔ تاہم آصف زرداری نے قائد حزب اختلاف کے چیمبر میں جاکر ان سے ملاقات نہیں کی، کیونکہ دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ ابھی تک قائم نہیں ہو سکا ہے۔ قبل ازیں اس حوالے سے جب ’’امت‘‘ نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن کے آپس کے رابطے ہونا ضروری ہیں۔ لیکن کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔ اس سے قبل جب اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شہباز شریف کو وزیر اعظم، جبکہ خورشید شاہ کو اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے نامزد کیا گیا تھا، تو پیپلز پارٹی نے متقفہ فیصلوں کو نہیں مانا اور شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیئے۔ اسی رویے کے نتیجے میں باہمی اعتماد میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلم لیگ (ن) کی قیادت اے پی سی کے انعقاد کے حوالے سے آپس میں مشاورت کرے گی‘‘۔
کہا جارہا ہے کہ آج منگل کو میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں آئیں گے اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ان کے چیمبر میں ملاقات کریں گے۔ لیکن اس بات کے امکانات کم ہی ہیں کہ اس وقت آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن بھی وہاں موجود ہوں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نون لیگ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کا مشورہ دینے والے سیکولر لیڈروں سے بھی میاں نوازشریف نالاں ہوتے جارہے ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پیپلز پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت اپوزیشن اجلاس میں شرکت کرتی ہے۔ ان اجلاسوں میں اب تک نہ آصف زرداری شریک ہوئے اور نہ ہی بلاول آئے۔ نون لیگ نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کی دوسرے درجے کی قیادت جیسے شاہد خاقان عباسی اور مریم اورنگ زیب ان اجلاسوں میں پارٹی کی نمائندگی کریں گے۔
لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے نون لیگ کے اعتماد کو یہ پہلی بار ٹھیس نہیں پہنچی۔ ماضی میں پرویز مشرف کے زمانے میں جب دونوں جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا تھا تو اس کے نتیجے میں آمر کی حکومت سخت دبائو میں آگئی تھی۔ اس کے بعد دبئی میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بے نظیر بھٹو کی آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات ہوئی اور پھر مشرف اور بے نظیر کے درمیان این آر او طے پا گیا۔ اس این آر او کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا کہ کسی بھی طرح نون لیگ کو فائدہ نہ ہونے پائے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کی اکثریت ہونے کے باوجود ان کا چیئرمین سینیٹ منتخب نہیں ہونے دیا۔ ایک سازش کے تحت راجہ ظفر الحق کی جگہ مقتدر حلقوں کے لیے ناقابل قبول اور بلوچستان میں شکست خوردہ جماعت کے سربراہ اور سینیٹر میر حاصل بزنجو کا نام چیئرمین سینیٹ کے لیے تجویز کرکے خود نون لیگ بلوچستان میں بغاوت کرواکے اپنا ڈپٹی چیئرمین منتخب کرالیا۔ جب نون لیگ نے متحدہ اپوزیشن کے لیے چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کی شرط رکھی جو صرف پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی وجہ سے منتخب ہوئے تو پیپلز پارٹی نے پسپائی اختیار کرلی۔ ان ذرائع کے مطابق اب جبکہ آصف زرداری خود نیب کے نرغے میں آگئے ہیں تو نون لیگ کو دانہ ڈال رہے ہیں۔ نواز لیگ، تحریک انصاف کے بعد ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ اکیاون ہزار سے زیادہ مجموعی ووٹ تحریک انصاف کے ہیں اور ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار سے زیادہ ووٹ مسلم لیگ (ن) کے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 69 لاکھ سے زیادہ نہیں۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ نون لیگ اس کے اشاروں پر چلے۔ یہی خواہش مولانا فضل الرحمن کی بھی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں نون لیگ کی کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی ووٹنگ پاور موجود ہے۔
Next Post