امت رپورٹ
باوثوق ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی اسلام آباد میں اپنے فارم ہائوس کے قریب واقع خیمہ بستی کی زمین ہتھیانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ غریب مکینوں کو پولیس کے ذریعے ہراساں کر رہے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ بھی اسی لئے کیا گیا کہ انہوں نے اعظم سواتی سے تعاون نہیں کیا تھا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا نوٹس لیتے ہوئے ان کے ٹرانسفر کے احکامات معطل کردیئے ہیں اور کل (بدھ کو) اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق اعظم سواتی اپنے فارم ہاؤس سے متصل زمین حاصل کرنے کیلئے وہاں رہائش پذیر خاندان کو اس جگہ سے ہٹانا چاہتے تھے۔ جب غریب فیملی نے ان کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کیا تو اس غریب خاندان پر اپنے کھیتوں میں جانور چھوڑنے، گارڈ سے اسلحہ چھیننے اور زد و کوب کرنے کا جھوٹا الزام لگا کر اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرا دیا ہے۔ اس خاندان کے ایف آئی آر میں نامزد اور گرفتار ملزمان میں بارہ سالہ ضیاء الدین، اس کی بہن، والدہ، بڑا بھائی اور والد نیاز خان شامل ہیں۔ نیاز خان اور اس کے بیٹے احسان اللہ کا پولیس نے ریمانڈ لے لیا ہے۔ تاہم پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ بارہ سالہ ضیاء الدین، اس کی والدہ اور بہن کو تھانے لے جایا گیا تھا، لیکن بعد میں رہا کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ تھانہ شہزاد ٹاؤن کی آرچرڈ اسکیم میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا فارم ہاؤس ہے، جس کے قریب ہی یہ غریب خاندان خیمہ بستی میں مقیم ہے۔ ذرائع کے مطابق اعظم سواتی ان کے کچے گھر کو یہاں سے ہٹا کر اس جگہ کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے ان لوگوں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کا کہا، لیکن وہ نہیں مانے۔ جس پر رعونت کے شکار اعظم سواتی نے ان غریبوں پر بے بنیاد الزام لگا کر جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آر اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے درج کرا دی۔ ذرائع کے بقول اعظم سواتی کا خیال تھا کہ مقدمہ درج ہوتے ہی یہ لوگ بھاگ جائیں گے اور ان کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو انہوں نے پولیس پر ان کی گرفتاری کیلئے دباؤ ڈالا۔ تاہم پولیس نے ٹال مٹول سے کام لیا تو دولت اور اختیارات کے زعم میں مبتلا اعظم سواتی نے آئی جی سے براہ راست رابطہ کیا۔ ذرائع کے مطابق آئی جی اسلام آباد کیپٹن (ر) جان محمد کو بھی اپنے ذرائع سے معلوم ہوگیا کہ اعظم سواتی ان کو کیوں فون کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس ظلم و زیادتی میں کردار ادا کرنے سے بچنے کیلئے اعظم سواتی کا فون نہیں سنا۔ جس پر ذرائع کے بقول اعظم سواتی نے پہلے وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی کو شیشے میں اتارا اور بعد میں وزیر اعظم عمران خان کے بھی کان بھرے۔ اس طرح یہ دونوں وزرا، عمران خان سے آئی جی کی تبدیلی کا فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق اعظم سواتی اور شہریار آفریدی نے آئی جی کو ہٹانے کیلئے ان پر مختلف الزامات عائد کئے اور وزیر اعظم سے ایسا فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوگئے، جو عمران خان اور ان کی حکومت کیلئے بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کے ٹرانسفر کے احکامات کو بظاہر بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے معطل کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج ایف آر No 247/18 کا مدعی اعظم سواتی کا بیٹا عثمان علی ہے۔ 382، 147، 149 کے تحت درج ایف آئی آر میں دو خواتین بھی نامزد ہیں۔ مدعی نے ان پر اپنے باغ اور کھیت میں جانور چھوڑ دینے اور سیکورٹی گارڈ کے منع کرنے پر اسے زد و کوب کرنے اور اس کی کلاشنکوف سے میگزین چھیننے کا الزام عائد کیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق آئی جی اسلام آباد جان محمد نے اس بے بنیاد کیس میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا اور وہ اس معاملے میں کارروائی کرنے سے گریزاں تھے، جس پر اعظم سواتی اور شہریار آفریدی کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں انہیں عہدے سے ہٹانے کے احکامات دیدیئے گئے، جو اب عدالت نے معطل کردیئے ہیں۔ اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے بدھ کو اس کیس کی سماعت کے موقع پر آئی جی کے تبادلے کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا تو کیا اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعظم سواتی اور شہریار آفریدی اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ یا وزیراعظم عمران خان گمراہ کر کے غلط آرڈر کرانے پر اپنے ان وزرا کو برطرف کردیں گے؟
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے ایک رازداں اور سابق قریبی ساتھی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی پہلے بھی حکومتوں میں رہے ہیں۔ لیکن عمران خان سے قربت کی وجہ سے اب وہ پہلے سے کہیں زیادہ متکبر اور ظالم شخص بن کر سامنے آرہے ہیں، جنہوں نے اپنے ذاتی مقاصد کی خاطر ایک غریب خاندان کی خواتین اور بچوں پر بے بنیاد مقدمہ درج کروا کر انہیں جیل بھجوا دیا ہے۔ ان کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی کے تبادلے کا نوٹس لے کر مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ چیف جسٹس ایف آئی آر کے اندراج اور اس کے حقیقی مقاصد کی تہہ تک پہنچنے کیلئے پولیس کے کسی دیانت دار افسر سے رپورٹ طلب کریں تو ساری صورت حال واضح ہوجائے گی اور اعظم سواتی کا گھناؤنا کردار کھل کر سامنے آجائے گا۔
ادھر وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی کی جانب سے غریب خاندان کے افراد کو جیل بھجوانے پر سوشل میڈیا میں شدید تنقید کی جارہی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں نے جسٹس (ر) وجیہ الدین کے فیصلے کے مطابق اعظم سواتی کو پارٹی سے نکلوانے کیلئے سوشل میڈیا پر مہم شروع کردی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے اعظم سواتی نے پی ٹی آئی کا صوبائی صدر بننے کیلئے ووٹ خریدے تھے، جس کی تحقیقات کے بعد جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے اعظم سواتی اور جہانگیر ترین سمیت دیگر کو پارٹی سے نکالنے کی سفارش کی تھی۔ ذرائع کے بقول اعظم سواتی اور ان کے بیٹے نے اسلام آباد کی خیمہ بستی کے رہائشی ایک غریب کسان کے خاندان کو گرفتار نہ کرنے پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کا ٹرانسفر کرادیا۔ ذرائع نے بتایا کہ جان محمد فرض شناس افسر ہیں اور انہوں نے ایک معمولی واقعے پر غریب خاندان کیخلاف کارروائی سے گریز کیا تھا۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق اپنے فارم ہائوس میں گھسنے پر اعظم سواتی کے بیٹے نے چوتھی جماعت کے طالب علم ضیاء الدین کی گائے کو باندھ لیا تھا اور گائے کی واپسی کے مطالبے پر ضیاء الدین کے گھر میں گھس کر اس کی ماں اور بہن پر تشدد کیا۔ بعدازاں پولیس کے ذریعے ان غریبوں کو گرفتار کرادیا، جس پر پورے ملک میں شدید رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر عمران خان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ جسٹس (ر) وجیہ الدین کی رپورٹ کی روشنی میں اعظم سواتی کو پارٹی سے نکالا جائے، کیونکہ ان کی وجہ سے پی ٹی آئی کو بدنامی کا سامنا ہے۔
اس واقعہ کے حوالے سے عوامی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے ستّر دن میں ستّر اسکینڈل منظر عام پر آچکے ہیں۔ مانسہرہ میں اعظم سواتی کے حالیہ اسکینڈل پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ جماعت اسلامی کے ڈاکٹر طارق شیرازی، جے یو آئی ’’ف‘‘ کے مرکزی رہنما مفتی کفایت اللہ اور دیگر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا ہے کہ وفاقی وزیر نے جس طرح معمولی تنازعے پر ظلم کا بازار گرم کیا ہے، اس سے واضح ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور سابقہ حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پولیس کو سیاسی دبائو سے آزاد کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کی جانب سے جس طرح میرٹ اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں وہ قابل مذمت ہے۔ اب عوام کو سمجھ جانا چاہیے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے اقدمات ان کے اپنے دعووں کی نفی ہیں۔ اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے وہ بہت جلد سیاسی موت مرجائیں گے۔ سوشل میڈیا پر بھی عوام کی جانب سے اس واقعہ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ لیاقت حسین نے لکھا کہ حکومت صبح کچھ کہتی ہے اور شام کو موقف تبدیل کرلیتی ہے۔ حمزہ نظام نے پوسٹ لگائی کہ اس حکومت میں شرم ہے نہ حیا۔ رحمان خان نے لکھا کہ محمودالرشید کے بیٹے کو پکڑنے پر آئی جی پنجاب تبدیل۔ اعظم سواتی کا فون نہ سننے پر آئی جی اسلام آباد تبدیل۔ خاور مانیکا کا کہنا نہ ماننے پر ڈی پی او پاکپتن تبدیل۔ عوام کو تبدیلی مبارک ہو۔ آسیہ نے لکھا کہ ایک ہزار قابل انسانوں کے مر جانے سے اتنا نقصاںنہیں ہوتا، جتنا ایک احمق کے صاحب اختیار ہوجانے سے ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ واقعہ ہاٹ ایشو بنا ہوا تھا۔
گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا نوٹس لیا۔ انہوں نے پہلے سیکریٹری داخلہ کو طلب کیا اور بعد میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون کی حکمرانی قائم رہے گی۔ ہم کسی سینیٹر، وزیر اور اس کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ وفقے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سیکریٹری داخلہ آئے ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے کہا کہ انہیں بلایا ہے، وہ آرہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ تمام ریکارڈ ساتھ لائیں اور بتائیں تبادلہ کیوں ہوا۔ ہم ریاستی اداروں کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سارے معاملات سرکار پر نہ چھوڑیں، ایسے تبادلوں کو عدلیہ برداشت نہیں کرے گی۔ ایک تبادلہ پنجاب میں بھی ہوا ہے، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آفس رپور ٹ دے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ریکارڈ طلب کرلیا اور ہدایت کی کہ سیکریٹری داخلہ کو کہیں کہ دونوں پولیس افسران کا ریکارڈ دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ یہ تبادلے کب ہوئے اور چند دن کی تعیناتی کے بعد آئی جیز کے تبادلے کیسے کردیئے گئے۔ بعد ازاں سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے تو دیر سے آنے پر عدالت نے ان پر برہمی کا اظہار کیا۔ سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ تبادلہ میں نے نہیں، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو پتہ ہے کہ تبادلہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیا تو ان کو بھی بلوا لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا اب ہم یہاں بیٹھ کر انتظار کریں اور لُڈو کھیلیں۔ معزز چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ، آپ کو معلوم ہی نہیں کہ آپ کے آئی جی کا تبادلہ کردیا گیا۔ اسلام آباد کی پولیس کس کے اختیار میں آتی ہے؟۔ اس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ پولیس محکمہ داخلہ کے اختیار میں آتی ہے، لیکن تبادلے کے وقت مجھ سے نہیں پوچھا گیا۔ اس دوران اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت سے درخواست کی گئی کہ کیس کی سماعت ملتوی کردی جائے۔ اس پر جس پر چیف جسٹس نے اسے مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ تمام مصروفیات ترک کرکے عدالت پہنچیں۔ بعدازاں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ پیش ہوئے اور عدالت کو آئی جی کے تبادلے کے بارے میں آگاہ کیا۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم کے زبانی احکامات پر تبادلہ کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تبادلے کی اصل وجہ کیا ہے؟ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ خود عدالت کو حقائق بتائیں۔ اس پر سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ آئی جی کے تبادلے کا معاملہ کافی عرصے سے چل رہا تھا۔ وزیراعظم آفس آئی جی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ سے مکالمہ کیا کہ کیوں نہ آپ کا بھی تبادلہ کردیا جائے۔ کیا آپ کو کھلا اختیار ہے کہ جو چاہیں کریں؟ کیا آپ یہ نیا پاکستان بنا رہے ہیں؟۔ وزیراعظم سے ہدایت لے کر جواب داخل کریں۔ پاکستان ایسے نہیں چلے گا بلکہ یہ ملک قانون کے تابع چلے گا۔ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اپنی حیثیت پہنچانیں، آپ ریاست کے ملازم ہیں۔ ایگزیکٹو جہاں غلطی کر رہے ہیں، اس کی نشاندہی کریں۔ اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لیا جائے گا کہ تبادلہ بدنیتی پر مبنی تو نہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے بدھ تک جواب طلب کرلیا۔ ساتھ ہی ریمارکس دیئے کہ تبادلے کا حکم قانون کے مطابق نہیں، اس لئے اسے معطل کر رہے ہیں۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد پولیس کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے ان کا تبادلہ روک دیا۔ واضح رہے کہ آئی جی اسلام آباد کی اچانک تبدیلی کا معاملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل 8 اکتوبر کو حکومت نے آئی جی پنجاب محمد طاہر کو بھی تبدیل کردیا تھا۔ جبکہ انہیں ماہ ستمبر میں ہی آئی پنجاب تعینات کیا گیا تھا۔ انہیں ہٹاکر امجد جاوید سلیمی کو نیا آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا تھا۔